ہماری دنیا میں کیا رکھا تھا جو شاہِ بطحا مِلا نہ ہوتا
وہاں پہ لوح و قلم نہ ہوتے یہاں پہ غارِ حِرا نہ ہوتا
کبھی نہ آتی کہیں سے خوشبو کہیں نہ کوئی گلاب کھلتا
ازل سے اب تک جہاں جہاں بھی زمیں پہ جو کچھ ہوا نہ ہوتا
تمام کعبے ، تمام معبد ترستے رہتے مجاوروں کو
دعا نہ ہوتی قبول کوئی ، کسی کا سجدہ ادا نہ ہوتا
کوئی بھی آتا کلیم بن کر نہ اپنے ربّ سے کلام کرنے
تمام آنکھیں ترستی رہتیں کوئی بھی جلوہ نُما نہ ہوتا
ہمارے جیسے ہجوم لاکھوں بھٹکتے پھرتے مقابروں میں
سکونِ دل کے لیے کسی کو بھی سبز گنبد عطا نہ ہوتا
نہ صبحیں آکر سلام کرتیں نہ راتیں ہم سے کلام کرتیں
اگر جبینِ فلک پہ اسمِ رسولِ رحمت لکھا نہ ہوتا
ہمارے جیسے گِرے پڑوں کی نجانے جانوں پہ کیا گزرتی
مرے نبی کا یہ بابِ رحمت اگر ہمیشہ کھلا نہ ہوتا
عمر نہ ہوتا علی نہ ہوتا کسی کی بنتی نہ بات انجؔم
کوئی بھی ہوتا نہ کوہِ عظمت کوئی بھی شیرِ خدا نہ ہوتا
شاعر کا نام :- انجم نیازی
کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو