ہوتا ہے عطا رزقِ سخن شانِ کرم ہے

ہوتا ہے عطا رزقِ سخن شانِ کرم ہے

کرتی ہوں ثنا، آپ کا فیضانِ کرم ہے


آقا کی محبت کا دیا دل میں ہے روشن

بخشش کا ملا خوب یہ سامانِ کرم ہے


بھرجاتے ہیں دامان فقیروں کے یہاں پر

طیبہ میں کُھلا خاصۂ خاصانِ کرم ہے


رحمت کی گھٹائیں ہیں تو اُجلی سی فضا ہے

اس رشکِ جناں شہر میں بارانِ کرم ہے


ہو سامنے آنکھوں کے حسیں گنبدِ خضرا

مدت سے مرے دل میں یہ ارمانِ کرم ہے


صد شکر ہے یہ ناز نے اپنائی ہے عادت

لب ذکر کریں اُن کا ہی احسانِ کرم ہے

شاعر کا نام :- صفیہ ناز

کتاب کا نام :- شرف

دیگر کلام

پہنچوں مدینے کاش!میں اِس بے خودی کے ساتھ

مائل بہ کرم ‘ چشمِ عنایات بھی ہوگی

اساں دنیا نوں کی کرنا تے کاروبار کی کرنا

بُلا لو پھر ہمیں شاہِ عربؐ مدینے میں

مٹتے ہیں جہاں بھر کے آلام مدینے میں

تیری رات تڑپ دیاں لنگھ جاوے نہ دن ویلے آرام آوے

تیری آمد ہے موت آئی ہے

اے جود و عطا ریز

تری نظروں سے نظروں کا ملانا بھی ہے بے اَدبی

کوئی حسین شاہ کے جواب میں، نہیں نہیں