اِدھر بھی نگاہِ کرم یا محمدؐ! صدا دے رہے ہیں یہ در پر سوالی
بہت ظُلم ڈھائے ہیں اہلِ ستم نے، دُہائی تری اے غریبوں کے والی
نہ پوچھو دلِ کیف ساماں کا عالَم ہے پیشِ نظر اُن کا دربارِ عالی
نگاہوں میں ہیں پھر حُضُوری کے لمحے، تصوّر میں ہے اُن کے روضے کی جالی
جبیں خیر سے مطلعِ خیر و احساں، بدن منبعِ نُور، اَبرو ہلالی
اِدھر رُوئے روشن پہ والشّمس کی ضَو، اُدھر دوش پر زلف والّیل والی
عطا کیجئے آل زہراؓ کا صدقہ، فضائل کے پھُولوں سے دامن ہے خالی
نہ عرفانِ حیدرؓ، نہ فقرِ ابوذرؓ، نہ تمکینِ سلماںؓ، نہ صبرِ بلالیؓ
سمندر بھرے نام کا جس کے پانی، اُسی ناخدا کی ہے یہ مہربانی
تلَاطُم میں آیا جو دریائے عصیاں، تو کشتی مِری ڈوبنے سے بچالی
نہ اب میرا خونِ تمنّا بہے گا، جو مانگا ہے اُن سے وہ مِل کر رہے گا
مَیں اُس شاہِؐ شاہاں کے در پر کھڑا ہُوں، کبھی بات سائل کی جس نے نہ ٹالی
نویدِ بہاراں ملے کِشتِ جاں کو ، خبر دے کوئی جاکے لب تشنگاں کو
برسنے کو آیا ہے طبیبہ سے بادل، وہ دیکھو اُٹھی ہے گھٹا کالی کالی
سزاوار ہیں اب تو لطف و کرم کے، کھڑے ہیں جو سائے میں بابِ حرم کے
لئے آنکھوں میں اشکوں کے موتی، سجائے ہوئے دل کے زخموں کی ڈالی
زمانہ ہے گرچہ مُسلسل سفر میں، مُسلَّم ہے دُنیائے فکرو نظر میں
تری بے نظیری، تری بے عدیلی، تری بے مَثیلی، تری بے مثالی
کرم ہے یہ سب آپ کا میرے آقاؐ! بلایا مجھے اپنی چوکھٹ پہ، ورنہ
کہاں میری پلکیں، کہاں خاکِ طیبہ، کہاں مَیں، کہاں آپ کا بابِ عالی
نہ مجھ میں کوئی گفتگو کا قرینہ، نہ دامن میں حرف و بیاں کا خزینہ
یہ عجزِ سخن ہی تو ہے میری دولت، ہے میرا ہُنر یہ مِری بے کمالی
رہے سَر پہ تاجِ شفاعت سلامت، ترا دَر رہے تا قیام ِ قیامت
توجّہ کی خیرات لے کر اُٹھے گا، نصیرؔ آج بیٹھا ہے بن کر سوالی
شاعر کا نام :- سید نصیرالدیں نصیر
کتاب کا نام :- دیں ہمہ اوست