میں کہ ناقص ،کس طرح سے

میں کہ ناقص ،کس طرح سے تیری مدحت کر سکوں

بے ہنر ہوں میرے آقاؐ! کیسے جرأت کر سکوں


پھول نعتوں کے چنے ہیں عمر بھر اس آس پر

قبر میں سرکارؐ آئیں، پیشِ خدمت کر سکوں


رات دن ان کا تصور ہر گھڑی ان کا خیال

کاش میں اپنے تخیل کو عبارت کر سکوں


حشر میں کیجے شفاعت بندۂ ناچیز کی

یوں لوائے حمد کے نیچے اقامت کر سکوں


یہ زباں بھی ہوسکے توصیف کے قابل شہا!

اپنے قلب و روح کی ایسی طہارت کر سکوں


آخرش ایمان طیبہ میں سمٹ کر آئے گا

کاش میں بھی اس گھڑی طیبہ سکونت کر سکوں


تیری یادوں کو بسا کر اپنے دل میں ہر گھڑی

قلبِ حیراں کے لیے سامانِ راحت کر سکوں


خاکِ طیبہ کو بنا لوں آنکھ کا سرمہ جلیل

یوں مدینہ شہر کی جی بھر زیارت کر سکوں

شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل

کتاب کا نام :- رختِ بخشش

دیگر کلام

مدینے کے دیوار وہ در جاگتے ہیں

دیدۂ شوق میں جب حاصلِ منظر ابھرے

دہلیز پہ سرکار کی جو لوگ پڑے ہیں

میں مدینے میں ہوں حاضر وقت بھی اور بخت بھی

طیبہ دے پر نُور نظارے

دکھاں تے درداں دے ہتھوں میں تے کدوں دا مرجانا سی

اگر مِل جائے اذنِ باریابی

یکتا ہے ترا طرزِ عمل ، احمدِؐ مرسل

نہیں ہے منگتا کوئی بھی ایسا کہ جس

ہمارے دِل کے آئینہ میں ہے نقشہ محمد کا