دیدۂ شوق میں جب حاصلِ منظر ابھرے

دیدۂ شوق میں جب حاصلِ منظر ابھرے

مطلعِ حرف سے تب مدحِ پیمبر ابھرے


اسمِ تاباں شہِ کونین کا جب بھی سوچا

بامِ افکار پہ کیا کیا مہ و اختر ابھرے


ان کی طاعت میں کوئی بردہ مٹادے خود کو

اس پہ بھی بھیک میں کچھ حسنِ پیمبر ابھرے


ان کے عشّاق کو کس طرح مٹائے دنیا

ان کی الفت میں جو ڈوبے ہیں وہ بڑھ کر ابھرے


مٹ گیا نام زمانے سے ترے اعدا کا

جو بھی عاشق ہیں وہ عزّت کے فلک پر ابھرے


تیری نسبت سے ہی صدیق و عمر چمکے ہیں

تیری نسبت سے ہی عثماں ہوئے، حیدر ابھرے


تیرے ہی نقشِ قدم سے ہوا یثرب طیبہ

میرے دل پر بھی شہا نقشِ منوّر ابھرے


منتظر جس کی تمنّا میں رہا ہوں نوری

کاش جاتے ہوئے آنکھوں میں وہ منظر ابھرے

شاعر کا نام :- محمد ظفراقبال نوری

کتاب کا نام :- مصحفِ ثنا

دیگر کلام

جو اُس کو دیکھ لے وہی صاحبِ نظر لگے

یانبی سلامٌ علیکَ یارسول سلامٌ علیکَ

جن کو نوازا آپ نے ، سُلطان ہو گئے

پھر اُٹھا وَلولۂ یادِ مُغِیلانِ عرب

یادوں میں وہ شہرِ مدینہ

کرم یہ بھی ہے مجھے پہ میرے خدا کا

لعل و گوہر نہ دمکتا سا نگینہ مانگے

ہر لحظہ ہے رحمت کی برسات مدینے میں

آئی نسیم کوئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم

اِسی لیے تو جھُکا جارہا ہے میرا سَر آگے