اِسی لیے تو جھُکا جارہا ہے میرا سَر آگے

اِسی لیے تو جھُکا جارہا ہے میرا سَر آگے

کہ ہے تجلّی دربارِ سیّد البشرؐ آگے


بجز رسولِؐ امیں تھا نہ کوئی چارہ گر اُن کا

بڑھے تھے اہلِ عرب سرکشی میں اِس قدر آگے


حریمِ ذات کی وہ شان ہے کہ جلنے لگیں پَر

حدودِ سِدرہ سے جبریلؑ بھی چلیں اگر آگے


گیا بُراق جدھر سے حضورؐ کا شبِ اسریٰ

کسی نبیؑ کا نہ اس راہ سے ہُوا گزر آگے


ہوئے مناسکِ حج ختم اب وقوف ہے کیسا

اُٹھو! کہ عشق کی منزل کا ہے ابھی سفر آگے


نہ تھی بشر میں یہ قدرت کہ مہر و ماہ سے گزرے

نہ تھا کبھی شب معراج سے یہ معتبر آگے


نہ داستانِ حرم چھیڑ اے مدینہ کے زائر

کہ خُون رونے پہ مائل ہے میری چشمِ تر آگے


یہ مُژدہ سب کو سُنا دو کہ کوئی گِر نہیں سکتا

حضورؐ ہوں گے سرِ پُل صراط جلوہ گر آگے


مَیں شہرِ درد میں تنہا ہُوں اے تصوّرِ آقاؐ!

مسافتوں کو سمیٹے نکل بھی آ اِدھر آگے


رسولِؐ پاک سے وابستہ ہے نجاتِ دو عالَم

بس ایک جنبشِ لب ہے وسیلۂ ظفر آگے


نصیب ہو جو کبھی اے نصیرؔ راہِ مدینہ

تُو ذرّے ذرّے کو بڑھنا ادب سے چُوم کر آگے

شاعر کا نام :- سید نصیرالدیں نصیر

کتاب کا نام :- دیں ہمہ اوست

دیگر کلام

وہ بختاور ہیں جن کو دم بدم یادِ خدا آئے

دردنداں کی ضیا ہے جو ہمارے گھر میں

نبي محترم صدیاں تمہارے نام سے روشن

تمام عزّ و شرف خاصۂ رسولؐ سے ہے

اے احمدِؐ مُرسل نورِ خدا

حبیب خدا دے گراواں دی محفل

شربتِ دیدار پیاسوں کو پلاتے ہیں ضرور

دکھاں تے درداں دے ہتھوں میں تے کدوں دا مرجانا سی

اُس نے چھوڑا نہ کسی حال میں تنہا مجھ کو

انہی میں ہم بھی ہیں جو لوگ میہمان ہوئے