دہلیز پہ سرکار کی جو لوگ پڑے ہیں
وہ خود بھی بھلے ان کے مقدر بھی بھلے ہیں
دامان طلب ان کے عطاؤں سے بھرے ہیں
جو تھام کے سرکار کی جالی کو کھڑے ہیں
اس دل کے مقدر میں نہیں کوئی بھی ظلمت
جس دل میں دیئے آپ کی یادوں کے جلے ہیں
تسکین بداماں ہے ہر اک سانس ہمارا
جس دن سے ترے نام پہ بے دام بکے ہیں
سرشار ہیں سرشار وہ سرشار رہیں گے
پیمانے توجہ سے تری جن کو ملے ہیں
جنت کے اٹھائے ہیں مزے شام سویرے
سائے میں ترے روضے کے جو بیٹھے ہوئے ہیں
وہ در ہے شہنشاہِ دو عالم کا جہاں پر
دنیا کے شہنشاہ بھی منگتوں میں کھڑے ہیں
جس وقت بھی چاہے کوئی سرکار سے مانگے
دروازے مرے آقا کی رحمت کے کھلے ہیں
اس بندہ ناچیز سے کس طرح رقم ہوں
مجھ پر مرے لج پال کے احسان بڑے ہیں
وہ قادری ، چشتی ہوں فریدی کہ نیازی
سرکار کے مے خانے ہر اک سمت کھلے ہیں
شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی
کتاب کا نام :- کلیات نیازی