صدشکر‘ اتنا ظرف مری چشم تر میں ہے

صدشکر‘ اتنا ظرف مری چشم تر میں ہے

دیکھے بغیر سارا مدینہ نظر میں ہے


پہلا سفر مدینے کا میں کیسے بھول جاؤں

سارا وجود میرا ابھی تک سفر میں ہے


لفظوں کے بس کی بات نہیں اس کا تجزیہ

کچھ ایسا کیف طیبہ کی شام و سحر میں ہے


ہے جلوہ پاش گنبدِ خضرا کچھ اس طرح

فیضانِ نور شہر کے ہر بام و دَر میں ہے


صدیاں ہوئیں حضورﷺ کو پردہ کئے مگر

خوشبو خرامِ پاک کی ہر رہ گزر میں ہے


تھوڑی سی خاک پاکِ مدینہ ہے میرے پاس

نازاں ہوں میں کہ دولت کونین گھر میں ہے


کیا ہوگا وہ وقار کسی تاجدار میں

اقباؔل جو مدینے کے دریوزہ گر میں ہے

شاعر کا نام :- پروفیسراقبال عظیم

کتاب کا نام :- زبُورِ حرم

دیگر کلام

عنوانِ کتاب آفرینش

بیاں کیسے ہوں الفاظ میں صفات ان کی

سجود فرض ہیں اظہارِ بندگی کے لئے

اِس شان سے ہو کاش تماشائے مدینہ

مالکِ کون و مکاں خود ہے ثنا خوانِ رسولﷺ

معراج نظر گنبد و مینار کا عالم

بے دیکھے مدینے کی تصویر ہے آنکھوں میں

فضا میں نکہتِ صلِ علیٰ ہے

سجدوں کا اثر اور ہے جلوں کا اثر اور

حبِ سر تاج رسولﷺ دل میں بسا کر دیکھو