التجا ہے یا نبی یہ آپ کی سرکار میں
ہم کو بھی بلوائیے اپنے سخی دربار میں
ہم پہ بھی چشم کرم صدقہ نواسوں کا حضور
آپ کے لطف و کرم کی دھوم ہے سنسار میں
شہر طیبہ میں رکھے ہیں جب سے آقا نے قدم
جھومتے پھرتے ہیں عاشق کوچہ و بازار میں
جانے کیا جادو بھرا تھا جانے کیا تاثیر تھی
آپ کے لہجے میں آقا آپ کی گفتار میں
منکر نور نبی تھا اس لیے شیطان ہوا
تھا مواحد وہ مگر مارا گیا انکار میں
زندگی صدقہ ہے محبوب خدا کے نام کا
زندگی اچھی ہے گر گذرے خیالِ یار میں
اس میں آقا کے پسینے کی ہیں خوشبوئیں بسی
ورنہ کیا رکھا ہوا ہے مہکتے گلزار میں
ہیں وہی راتیں کہ باتیں جن میں ہوں سرکار کی
دن وہی دن ہیں جو گذریں مصطفیٰ کے پیار میں
کچھ نیازی کو بھی اپنے عشق کی خیرات دے
ہاتھ پھیلائے ہیں میں نے بھی سخی دربار میں
شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی
کتاب کا نام :- کلیات نیازی