عصیاں کا بار اٹھائے

عصیاں کا بار اٹھائے عاصی یہ اپنے سر پر

آیا ہے اس یقیں سے بگڑی بنے گی سرور


منزل کٹھن ہے گرچہ ، دشوار راستے ہیں

پر میں نہیں پریشاں ، سرکارؐ جو ہیں رہبر


ان کا میں اُمّتی ہوں جن کے کرم کے صدقے

کُل عاصیوں کو مولا بخشے گا روزِ محشر


چھڑوائیں گے مجھے بھی مشکل کی اس گھڑی میں

میرا غلام ہے یہ ، محشر میں اتنا کہہ کر


اے کاش آئے وہ دن ہو سامنے مواجہ

تیری سنہری جالی تکتا رہوں برابر


حضرت بلالؓ ، تیری الفت پہ جاؤں قرباں

کہا لا الہ ہر دم ظلمِ کثیر سہہ کر


میں بھی جلیل اپنے ہر درد کی کہانی

خود ان سے جا کہوں گا گر لے گیا مقدر

شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل

کتاب کا نام :- رختِ بخشش

آنکھوں میں ترا شہر سمویا بھی

یہ آرزو نہیں کہ دعائیں ہزار دو

امیدیں جاگتی ہیں دل ہیں زندہ گھر سلامت ہیں

مجھ کو شہرِ نبی کا پتہ چاہئے

یہ دنیا ایک سمندر ہے مگر ساحِل مدینہ ہے

تیری ہی ذات اے خدا اصلِ وجُودِ دوسرا

نظر جمالِ رُخ نبی پر جمی ہوئی ہے جمی رہے گی

جب سامنے نظروں کے دربار نبیﷺ ہوگا

عِشق مولیٰ میں ہو خوں بار کنارِ دامن

خلق دیتی ہے دہائی مصؐطفےٰ یا مصؐطفےٰ