عصیاں کا بار اٹھائے

عصیاں کا بار اٹھائے عاصی یہ اپنے سر پر

آیا ہے اس یقیں سے بگڑی بنے گی سرور


منزل کٹھن ہے گرچہ ، دشوار راستے ہیں

پر میں نہیں پریشاں ، سرکارؐ جو ہیں رہبر


ان کا میں اُمّتی ہوں جن کے کرم کے صدقے

کُل عاصیوں کو مولا بخشے گا روزِ محشر


چھڑوائیں گے مجھے بھی مشکل کی اس گھڑی میں

میرا غلام ہے یہ ، محشر میں اتنا کہہ کر


اے کاش آئے وہ دن ہو سامنے مواجہ

تیری سنہری جالی تکتا رہوں برابر


حضرت بلالؓ ، تیری الفت پہ جاؤں قرباں

کہا لا الہ ہر دم ظلمِ کثیر سہہ کر


میں بھی جلیل اپنے ہر درد کی کہانی

خود ان سے جا کہوں گا گر لے گیا مقدر

شاعر کا نام :- حافظ عبدالجلیل

کتاب کا نام :- رختِ بخشش

دیگر کلام

دیکھ لوں جا کر مدینہ پاک کو

ان کے چہرے کی تجلّی سے

سدا ممنونِ احساں ہوں کہ

خوشا ان کی محبت ہے بسی

جنہیں ان کے در سے اجازت ملی ہے

خلوت میں کبھی یاد جو آئی ترے در کی

زندگی میرے نبیؐ کی اک جلی تحریر ہے

ہے سب سے جُدا سید ابرارؐ کا عالم

ہر ایک مقام پہ اصلِ نشانِ رحمت ہے

ثنائے حبیبِ خدا کر رہا ہوں