کہاں ملتی مسرت دور رنج و غم کہاں ہوتے

کہاں ملتی مسرت دور رنج و غم کہاں ہوتے

نہ آتے مصطفیٰؐ تو ہم خوش و خرم کہاں ہوتے


قدم رنجہ نہ فرماتے اگر سرکار گیتی پر

شرارے آتشِ ظلم و ستم کے کم کہاں ہوتے


انیسِ بے کساں نے سر خوشی کر دی عطا ورنہ

مسرت آشنا دنیا میں اہلِ غم کہاں ہوتے


نہ ہوتی دہر میں بعثت اگر محبوبِ داور کی

خلائق میں معظم ہم بنی آدم کہاں ہوتے


وجودِ عالمیں ہے آمدِ سرکار کا صدقہ

اگر آقاؐ نہیں ہوتے تو دو عالم نہیں ہوتے


نہ جم جاتے اگر بوبکر اپنے عزمِ محکم پر

خلافت میں اٹھے فتنوں کے تیور کم نہیں ہوتے


مشیت کو بنانا تھا نبیؐ کا مدعا ورنہ

عمر بھی عازمِ سوئے درِ ارقم نہیں ہوتے


اگر ذاتِ غنی ہوتی نہ صدرشکِ حیا داری

فرشتوں میں غنی کے تذکرے باہم نہیں ہوتے


نہ گرتی برق کی صورت جو شمشیرِ ید اللٰہی

سرِ مغرور باطل قوتوں کے کم نہیں ہوتے


اگر شامل لہو ہوتا نہ ایثار خدیجہ کا

در و دیوار قصرِ دیں کے مستحکم نہیں ہوتے


ہمیں احسؔن نبیؐ کا دامنِ رحمت ملا ورنہ

رہِ ہستی میں گم گشتہ نہ جانے ہم کہیں ہوتے

شاعر کا نام :- احسن اعظمی

کتاب کا نام :- بہارِ عقیدت

دیگر کلام

ماہِ ذیشان ربیع الاوّل

خواب میں کاش کبھی ایسی بھی ساعت پاؤں

اہلِ ایماں کے لیے جانوں سے اولیٰ آپؐ ہیں

ہمارے دل کے آئینے میں ہے جلوہ محمّد کا

یاشَہَنشاہِ اُمَم! چشمِ کرم

سرکارؐ! اساں مسیکناں دی کیوں دُور مُصیبت نہیں ہوندی

جاری اے فیض زمانے تے سرکار مدینے والے دا

دنیا نہیں دیتی تو نہ دے ساتھ ہمارا

ہادیؐ و رہبرؐ سرورِ عالمؐ

ایہہ رات نظاریاں والی اے اس رات دیاں کیا باتاں نے