مدینہ شہر کے مالک مجھے خاکِ مدینہ دے
لگا لوں خاک پلکوں سے مجھے ایسا قرینہ دے
بچھا کر اپنے ہاتھوں پر میں پلکوں سے اسے چوموں
حرا کے غار میں موجود پوشیدہ دفینہ دے
جہاں خوش رو کے قدموں کا ابھی تک لمس ہے باقی
وہاں کے سنگ جوہر ہیں مجھے ان سے نگینہ دے
مجھے لفظوں کی رم جھم سے منور دل عطا کر دے
ہو جس میں مصطفیٰ کا نور شامل وہ خزینہ دے
فرشتوں کو سنانی ہے یہ مدحت اپنے احمد کی
رسائی آسماں تک ہو مجھے نوری تو زینہ دے
اِدھر سے دیکھ لے خضریٰ ، اُدھر سے آسماں جائے
مجھے مدحت نگاری سے تو ایسی چشمِ بینا دے
مجھے الماس کی دھرتی پہ اک یاقوت کی تسبیح
سے آقا آقا پڑھنے کے لیے پورا مہینہ دے
مدینے کی طلب کرتے تھکن سے چُور رہتا ہوں
سکوں دے اپنے روضے سے مجھے ہر پل سکینہ دے
سمندر ہے کدورت کا ، کہیں فرقہ پرستی کا
مجھے آلِ عبا والا سہارا دے ، سفینہ دے
یہی منزل مسلماں کی ، یہی قائم کی حسرت ہے
نہیں ہیں مصطفیٰ جس میں وہ ہستی تو کبھی نا دے
شاعر کا نام :- سید حب دار قائم
کتاب کا نام :- مداحِ شاہِ زمن