میری سانسوں میں روانی مصطفٰی کے دم سے ہے

میری سانسوں میں روانی مصطفٰی کے دم سے ہے

اب مرے شیطاں کو نسبت رنج سے ہے غم سے ہے


سارے عالم کی بہاریں اس کی قسمت پر فدا

جس کسی کا بھی تعلق جانِ دو عالم سے ہے


ایک آنسو عشقِ جاناں کی نمائش کر گیا

صرف مجھ کو یہ شکایت اپنی چشمِ نم سے ہے


پھول چہرہ گریہِ شب بے سبب کرتا نہیں

سردئ آتش کو نسبت قطرہِ شبنم سے ہے


ہم خیالِ یار پر ہی مر مٹیں تو کیا عجب

اور تم کو کیا توقع بد نصیبو ہم سے ہے


کیوں نہیں ہے اے تبسم تجھ کو بخشش کا یقیں

تیری نسبت خالقِ کونین کے محرم سے ہے

دیگر کلام

دور آنکھوں سے در نہ جائے کہیں

مطلعِ نورِ الٰہی ہے نہارِ عارض

صَلّ اللّٰہ علیہِ وسلّم

سخن کی بھیک ملے یہ سوال ہے میرا

جتھے جتھے وی اُہدا نقش قدم ہندا اے

نہ سُر کی مجھ کو خبر ہے نہ جانتا ہوں میں لَے

ہے وجہِ وفورِ ولا و محبت

دو گھڑیاں کملی والڑیا میرے گھر ول جھاتی پاؤندا جا

سر بسر تھا مرے سرکار کا پیکر اخلاص

ہے بے قرار دعا جیسے مُدّعا کے بغیر