مجھے غلام، اُسے میرا شہریار کیا
مِرے کریم! کرم تُو نے بے شمار کیا
بُلا کے عرش پہ حق نے تجھے شبِ معراج
ترے سپرد خدا ئی کا اقتدار کیا
فلک پہ شُہرہ ہُوا تیری آمد آمد کا
سلام جُھک کے فرشتوں نے بار بار کیا
گھٹا دیا تری ہیبت نے قد رعونت کا
بُتوں پہ، کفر پہ، فرعونیت پہ وار کیا
یہ کج کلاہ تو اپنوں کے دل نہ جیت سکے
ترے خلوص نے دشمن کا دل شکار کیا
خدا گواہ! گناہوں پہ اپنے نادم تھا
ترے کرم نے مجھے اور شرمسار کیا
بربِّ کعبہ، غریب و یتیم بچّوں سے
حسنؓ حسینؓ کی مانند تُو نے پیار کیا
خدا کا شکر، کہ مثلِ کبوترانِ حرم
طواف مَیں نے ترے در کا بار بار کیا
خزاں نے اشک بہائے جب اپنی قسمت پر
تو مصطفیٰ ؐ نے کہا جا! تجھے بہار کیا
نصیرؔ! تا بہ اَبَد واجبُ العمل ٹھہرا
وہ دینِ حق، جو محمدؐ نے آشکار کیا
یہ نہ پوچھو مِلا ہمیں درِ خیرؐ الورٰی سے کیا
نظر اُن کی پڑی تو ہم ہُوئے پل بھر میں کیا سے کیا
مِرے دل کی وہ دھڑکنیں دمِ فریاد سُنتے ہیں
متوجّہ جو ہیں، وہ ہیں، مجھے بادِ صبا سے کیا
نظر اُن کی جو ہوگئی اثر آیا دُعا میں بھی
مِرے دل کی تڑپ ہی کیا، مِرے دل کی صدا سے کیا
جسے اِس کا یقین ہے کہ وہی بخشوائیں گے
کوئی خطرہ، کوئی جھجک اُسے روزِ جزا سے کیا
رہِ طیبہ میں بے خودی کے مناظر ہیں دیدنی
کبھی نقشے ہیں کچھ سے کچھ، کبھی جلوے ہیں کیا سے کیا
اثر انداز اُس پہ بھی مِرے آقاؐ کا رنگ ہے
کہیں آنکھیں مِلائے گا کوئی اُن کے گدا سے کیا
اَجل آتی ہے رُو برو، تو دبے پاؤں ، باوضو
جو محمدؐ پہ مَر مٹا، اُسے ڈرنا قضا سے کیا
دمِ مدحت خشوعِ دل سے ضروری ہے اِستماع
نہ مخاطب جو ہو کوئی کروں باتیں ہَوا سے کیا
جسے آدابِ گُلشنِ نَبَوی کی خبر نہیں
وہ بھَلا لے کے جائے گا چمنِ مصطفیٰ ؐ سے کیا
جسے خیرات بے طلب مِلے بابِ رَسولؐ سے
اُسے دارین میں نصیرؔ غرض ماسِوا سے کیا
اَجل آتی ہے رُوبرو، تو دبے پاؤں ، با وضو
جو محمدؐ پہ مَر مِٹا ، اُسے ڈرنا قضا سے کیا
شاعر کا نام :- سید نصیرالدیں نصیر
کتاب کا نام :- دیں ہمہ اوست