ملکِ خاصِ کِبریا ہو

ملکِ خاصِ کِبریا ہو

مالکِ ہر ماسِوا ہو


کوئی کیا جانے کہ کیا ہو

عقلِ عالَم سے وَرا ہو


کَنزِ مَکتومِ اَزل میں

دُرِّ مَکْنُونِ خدا ہو


سب سے اوّل سب سے آخر

اِبتِدا ہو اِنتِہا ہو


تھے وسیلے سب نبی تم

اصل مَقْصُودِ ہُدیٰ ہو


پاک کرنے کو وُضو تھے

تم نمازِ جانفزا ہو


سب بِشارَت کی اذاں تھے

تم اذاں کا مُدَّعا ہو


سب تمہاری ہی خبر تھے

تم مُؤخَّر مُبتَدا ہو


قُربِ حق کی منزلیں تھے

تم سفر کا مُنْتَہیٰ ہو


قبلِ ذکر اِضمار کیا جب

رُتْبَہ سابِق آپ کا ہو


طُورِ موسیٰ چَرخِ عیسیٰ

کیا مُساوِیِ دَنیٰ ہو


سب جِہَت کے دائرے میں

شَش جِہَت سے تم وَرا ہو


سب مکاں تم لامکاں میں

تن ہیں تم جانِ صَفا ہو


سب تمہارے در کے رستے

ایک تم راہِ خُدا ہو


سب تمہارے آگے شافِع

تم حضورِ کِبریا ہو


سب کی ہے تم تک رسائی

بارگہ تک تم رسا ہو


وہ کَلَس رَوضے کا چمکا

سر جھکاؤ کَج کُلاہو


وہ درِ دولت پہ آئے

جھولیاں پھیلاؤ شاہو

شاعر کا نام :- احمد رضا خان بریلوی

کتاب کا نام :- حدائقِ بخشش

دیگر کلام

عارضِ شمس و قمر سے بھی ہیں انور ایڑیاں

کیا ٹھیک ہو رُخِ نبوی پر مثالِ گل

گنہ گاروں کو ہاتِف سے نوید خوش مآلی ہے

لَم یَاتِ نَظِیْرُکَ فِیْ نَظَرٍمثلِ تو نہ شُد پیدا جانا

لَحد میں عشقِ رخِ شہ کاداغ لے کے چلے

ماہ سیما ہے اَحْمدِ نوری

مژدہ باد اے عاصیو! شافِع شہِ اَبرار ہے

نارِ دوزخ کو چمن کر دے بہار عارِض

نبی سرورِ ہر رسول و ولی ہے

نہ عرشِ ایمن نہ اِنِّیْ ذَاھِبٌ میں میہمانی ہے