قبر میں پل بھر کو وہ آئے ہر سو پھیلا نور

قبر میں پل بھر کو وہ آئے ہر سو پھیلا نور

نظمی نے پہچان ہی لی سوامی کی چھبی مشہور


چھبی مشہور جو انکت سدا رہی تھی من درپن میں

جس کی خوشبو بسی ہوئی تھی تن من کے کن کن میں


سوامی کی چھبی دیکھ کے نظمی کھڑا ہوا آدر سے

درود کے پاٹھ کے ساتھ ہی اس کی آنکھ سے آنسو برسے


سارا جیون ترسا تھا سیوک جن کے درشن کو

ان کو اپنی آنکھوں دیکھ آنند ملا تھا من کو


یہ سوامی میں سیوک ان کا یہی میرا ابھیمان

ایک سیوک سے پوچھ رہے ہو سوامی کی پہچان


یہ کہہ کر نظمی نے پھر سے درود کا دور چلایا

میرا یہ آنند دیکھ کر دوتوں نے فرمایا


سو جا اپنی قبر میں جیسے نئی دولہن سوتی ہے

سچے سیوک کی بے شک پہچان یہی ہوتی ہے

کتاب کا نام :- بعد از خدا

دیگر کلام

میں اندھیرے میں ہوں ‘ تنویر کہاں سے لاؤں

تیری رحمتوں کا دریا سرِ عام چل رہا ہے

اگر نہ تیری فقیری اے تاجدار کرے

لب وا کیئے تھے رکھ کے محمدؐ کے در پہ ہاتھ

!مجھ کو ترے کرم کا سہارا ہے اَے کریم

سہارا دو سہارا دو سہارا یا رسول اللہ ﷺ

مثنویِ عطار- ۴

تنہائیوں میں جب بھی پڑھوں نعت مصطفٰی ﷺ

کیڈا سوہنا روضہ سوہنے دا سیاں تک تک اکھیاں ٹھار دیاں

عقل محدود ہے عشق ہے بیکراں