قلب کی التجا مدینہ ہے

قلب کی التجا مدینہ ہے

مقصدِ ہر دُعا مدینہ ہے


ذرّہ ذرّہ وہاں کا ہے گلشن

ہاں عجب پُر فضا مدینہ ہے


کون ہے جو نہیں وہاں کا غلام

دہر کا آسرا مدینہ ہے


کہہ رہے ہیں یہ دوجہاں والے

نازشِ دوسرا مدینہ ہے


وہیں جلتے ہیں جبریل کے پر

خود سمجھ لو کیا مدینہ ہے


ہے ہر اک آئینہ کو حیرانی

کِس قدر با صفا مدینہ ہے


مجھ سے کیا پوچھتے اے بہزؔاد

ہاں مرا مدُعا مدینہ ہے

شاعر کا نام :- بہزاد لکھنوی

کتاب کا نام :- نعت حضور

دیگر کلام

سر تا قدم برہان ہو

ایہہ کون آیا جدِھے آیاں

عام ہیں آج بھی ان کے جلوے ، ہر کوئی دیکھ سکتا نہیں ہیں

اک اک سے کہہ رہی ہے نظر اضطراب میں

اُجالے سرنگوں ہیں مطلع انوار کے آگے

دل ہے چوبدار، سانس ایلچی رسولؐ کی

اصلِ مسجودِ مَلک ، جانِ مہِ کنعان ہو

ہُن اتھرو نہیں اکھیاں نے ٹھلنے مدینے دا خیال آگیا

یہ تو بس اُن کا کرم ہے کہ ثنا سے پہلے

لگا رہی ہے صدا یوں صبا مدینے میں