رسول کوئی کہاں شاہِؐ انبیا کی طرح

رسول کوئی کہاں شاہِؐ انبیا کی طرح

مُطاعِ خَلق ہیں قرآں میں وہ خدا کی طرح


‘‘پڑی ہے دل میں مِرے عشقِ مصطفیٰؐ کی ’’طرح

مہک رہا ہے مِرا ہر نَفَس صبا کی طرح


نہ تھا نہ ہے کوئی اُن سا نہ ہوسکے گا کبھی

وہ اپنی ذات میں بے مِثل ہیں خدا کی طرح


کوئی کتاب کب اُمُّ الکتاب کی صُورت

کوئی نبیؑ نہ ہُوا سیّد الوریٰ کی طرح


مِرے غموں کا مداوا فقط حُضوری ہے

بہر نَفَس ہے یہ دُوری مجھے سزا کی طرح


کوئی بشر نہ تری گردِ راہ کو پہنچا

تمام عُمر بھٹکتا رہا ہَوا کی طرح


تِری نگاہ میں تھی عفو و درگزر کی جھلک

عَدُو سے آنکھ مِلائی تو آشنا کی طرح


جگہ اگر تِرے قدموں میں مجھ کو مِل جاتی

تو چُومتا تِرے نعلین، نقشِ پا کی طرح


نبیؐ کے روضے کی ہر صبح جالیاں چُوموں

اگر ملے تو مقّدر ملے صبا کی طرح


چمک اُٹھا تِرے جلووں سے دل کا آئینہ

خیالِ غیر مٹا نقشِ ماسِوا کی طرح


حُضُورؐ! دُخترِ تہذیبِ نَو پہ، ایک نظر

یہ سَر برہنہ ہے، بانُوئے بے رِدا کی طرح


نصیرؔ کو بھی اجازت ملے خدا کے لیے

پڑا رہے تِری دہلیز پر گدا کی طرح

شاعر کا نام :- سید نصیرالدیں نصیر

کتاب کا نام :- دیں ہمہ اوست

دیگر کلام

آنکھوں کو جستجو ہے تو طیبہ نگر کی ہے

ہے مدینے سے مرے قلب کا رشتہ محفوظ

ہر زمانہ ہی ترا مدح سرا لگتا ہے

نگاہِ لُطف کے اُمیدوار ہم بھی ہیں

واہ واہ سوہنے دیاں لج پالیاں

ایہ محفل کرماں والی اے سبحان الله ، سبحان الله

بِگڑے ہوؤں کو کِس نے سنوارا ترے بغیر

بڑے ادب سے جھکا کے نظریں

لَم یَاتِ نَظِیْرُکَ فِیْ نَظَرٍمثلِ تو نہ شُد پیدا جانا

فہمِ بشر سے اونچی ہے تقریرِ والضحٰی