ہر زمانہ ہی ترا مدح سرا لگتا ہے

ہر زمانہ ہی ترا مدح سرا لگتا ہے

تیرا خالق بھی شہاؐ تجھ پہ فدا لگتا ہے


چہرہِ پاک کے گرویدہ ہوئے شمس و قمر

حسنِ عالم ترے قدموں کی ضیا لگتا ہے


کہیں عظمت کہیں رحمت کہیں بخشش کا بیاں

سارا قرآن ہی مصروفِ ثنا لگتاہے


اونچی آواز نہ کرنا کبھی در پر اُن کے

رب کے محبوبؐ ہیں وہ رب کو بُرا لگتاہے


وادیِ رحمت و راحت ہے مدینہ آقاؐ

ہر کوئی شخص یہاں غم سے رہا لگتاہے


میرے غمخوار پہ سب حال مرا روشن ہے

یہاں دُکھ درد کا اظہار خطا لگتاہے


ذکرِ سرکارِؐ دوعالم ہے فقط راحتِ جاں

ذکرِ سرکارؐ ہی ہر غم کی دوا لگتا ہے


اُلفتِ آلِ نبیؐ جس کو نہیں دور رہے

تیرے اصحاب ؓکا منکر مرا کیا لگتا ہے


تیری دہلیز پہ جب سر کو جھکا دیتا ہوں

ہر خزانہ مرے قدموں میں پڑا لگتا ہے


عظمتِ کون و مکاں خم ہے یہاں یاد رہے

جتنا جھکتا ہے کوئی اُتنا بڑا لگتا ہے


کیسا پُرکیف ہے چہرہ ترا کیا رونق ہے

شہرِ سرکارؐ سے آئے ہو پتا لگتا ہے


عجز ہوتا ہے طبیعت میں تو اشک آنکھوں میں

تیرا عاشق بھری محفل میں جُدا لگتا ہے


روز انعامِ ثنا ملتاہے ہم کو رب سے

اب تو ہر دن ہی ہمیں روزِ جزا لگتا ہے


سن کے یہ نعت شکیلؔ اہلِ نظر بول پڑے

درِ سرکارؐ سے کچھ پردہ ہٹا لگتا ہے

شاعر کا نام :- محمد شکیل نقشبندی

کتاب کا نام :- نُور لمحات

دیگر کلام

ہندا اے کرم خوش بختاں تے سلطان مدینے والے دا

ان پہ سب کچھ نثار کرتے ہیں

مجھے یقیں ہے

جے آقاؐ دی نظر ہو جاوے

ہر کوئی یہ کہتا ہے ترا ہونے سے پہلے

طیبہ رشک جناں خلد زار اللہ اللہ اللہ

زمیں تیری خاطر بچھائی گئی ہے

لاریب حضور دی ذات

میں دنیا کی شہرت نہ زَر مانگتا ہوں

ہے زیست کی بہار دیارِ رسولؐ میں