روشنی کا عروج ظلمتوں کا زوال
آئینہ بھی وہی ، وہ ہی عکسِ جمال
کس کا اوجِ کمال ، م ح م د
یہ ازل یہ ابد ، نور کا ان کے قد
عشق اور حسن ہیں ان کے خال اور خد
تھے وہ موجو د جب ، جب نہ تھے روز و شب
ان کا کلمہ تھا جب ، جب نہ تھے ما ہ وسال
کس کا اوجِ کمال ، م ح م د
ان کا جود و کرم ، دشمنوں کو اماں
دستِ اعجاز دے ، کنکری کو زباں
حق نے بخشی انھیں حکمتِ لازوال
روک دیں وہ حرام ، اذن دیں وہ حلال
کس کا اوجِ کمال ، م ح م د
اس جہاں میں کوئی ایسا آیا نہیں
دھوپ میں جو چلے اور سایہ نہیں
فرش تو فرش ہے عرش پر بھی نہیں
ایسی کوئی نظیر ، ایسی کوئی مثال
کس کا اوجِ کمال ، م ح م د
مانگنا تو کجا بے طلب ہی دیا
کون ایسا ہے جو ، در سے خالی گیا
مجھ کو دکھلایئے ، ایسا دامن کوئی
ایسا منگتا کوئی ، ایسا دستِ سوال
کس کا اوجِ کمال ، م ح م د
وہ اشارہ کریں ، چل پڑے ہر شجر
روک دیں وہ اگر ، ترک کر دیں سفر
روشنی اور ہوا ، جنبشِ لب اِدھر
حرکتِ قلب اُدھر گردشِ ماہ وسال
کس کا اوجِ کمال ، م ح م د
نُور ان کی اساس نُور ان کا لباس
نُور ان کا بدن نُور ہی پیرہن
جو بھی ان سے ملے ربّ سے وہ جا ملے
جو بھی دیکھے اُنھیں رَبّ کا دیکھے جمال
کس کا اوجِ کمال ، م ح م د
ان کی رحمت کے سایہ میں ہیں ہم سبھی
ان کی سائے میں ہیں ہم گنہ گار بھی
بخشوائے گی رحمت انھیں حشر میں
جو ندامت کے اشکوں سے ہوں گے نہال
کس کا اوجِ کمال م ح م د
شاعر کا نام :- حضرت ادیب رائے پوری
کتاب کا نام :- خوشبوئے ادیب