سرکارِ دو عالم کے دیکھو ہر سمت نظارے ہوتے ہیں

سرکارِ دو عالم کے دیکھو ہر سمت نظارے ہوتے ہیں

کونین اُدھر ہوجاتی ہے جس سمت اِشارے ہوتے ہیں


مہتاب کے ٹکڑے ہوتے ہیں ، سورج بھی اُلٹا پھرتا ہے

جس وقت مدینے والے کی اُنگلی کے اِشارے ہوتے ہیں


لوٹا نہ کوئی دَر سے خالی ‘ مانگا جو کسی نے مِل ہی گیا

وہ در ہے نبیؐ کا جس دَر پر منگتوں کے گزارے ہوتے ہیں


یہ کعبہ نہیں ‘ یہ طور نہیں‘ یہ دَر ہے رسولِ اکرم کا

اِس خاک کے ذرّوں پر صدقے مہتاب ستارے ہوتے ہیں


دربارِ نبیؐ میں اے مسلؔم ہم کو بھی خدا پہونچا دیوے

سنتے ہیں وہاں پر بندوں کو مولےٰ کے نظارے ہوتے ہیں

شاعر کا نام :- نامعلوم

دیگر کلام

تم سے کیفِ حضوری بیاں کیا کروں

رَہرو ہر راہ سے ہٹ کر سُوئے بطحا چلیں

نعت سنتا رہوں نعت کہتا رہوں

جس دَور پہ نازاں تھی دنیا

عاصیوں کو دَر تمہارا مِل گیا

وہ حسنِ مجسّم نورِ خدا نظروں میں سمائے جاتے ہیں

مچلتا ہے دِل ڈبڈباتی ہیں آنکھیں

محمد مصطفےٰ اللہ کے ہیں رازداروں میں

عَجب کرم شہِ والا تبار کرتے ہیں

کِس چیز کی کمی ہے مولیٰ تری گلی میں