سرکار دو عالم سرور دیں کس پر وہ کرم فرماتے نہیں

سرکار دو عالم سرور دیں کس پر وہ کرم فرماتے نہیں

اپنے تو پھر بھی اپنے ہیں وہ غیر کا دل بھی دکھاتے نہیں


دن بیتے جیسے بیتے ہیں جینے کو تو اب بھی جیتے ہیں

جس دن سے مدینہ دیکھا ہے مجھے اور نظارے بھاتے نہیں


رو رو کے عمریا بیت گئی میں ہارا دنیا جیت گئی

جانے کیا ایسی بات ہوئی وہ رخ سے نقاب اٹھاتے نہیں


سرکار کی رحمت ہوتی ہے جب آنکھ کسی کی روتی ہے

محروم تمنا پلکوں پہ اشکوں کے دیپ جلاتے نہیں


جب سنوں مدینے کی باتیں بن بادل برسیں برساتیں

اے باد صبا کچھ تو ہی بتا کیوں مجھ کو پاس بلاتے نہیں


ہم چھوڑ کے در نہ جائیں گے بس گیت نبی کے گائیں گے

ہم مانگت ہیں اُس آقا کے جو دے کر بھیک جتاتے نہیں


سرکار کرم فرماتے ہیں جب یاد کرو وہ آتے ہیں

جو تڑپیں ان کی الفت میں انکو وہ کبھی تڑپاتے نہیں


اکھین میں آنسو پھیلے ہیں کرپا کیجو من میلے ہیں

جو آپ کے ہیں وہ غیروں کو اپنا دکھ درد سناتے نہیں


رحمت کی نجریا کر ڈالو منگتوں کے کاسے بھر ڈالو

سنتا ہوں تمہاری چوکھٹ پر جو آئیں خالی جاتے نہیں


دل گنبد خضری کا ہے امیں جس میں ہے مکیں طیبہ کا حسیں

ان سا نہ نیازی دیکھا کہیں ہم یونہی تو اتراتے نہیں

شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی

کتاب کا نام :- کلیات نیازی

دیگر کلام

تیرے نام سے ہی تو میرا بھرم ہے

طیبہ کے مسافِر مجھے تو بھول نہ جانا

زمیں کا یہ مقدر ہے

بیاں ہو کس سے کمالِ محمدِ عربی

ہم پہ ہو تیری رحمت جم جم ، صلی اللہ علیک وسلم

شہنشاہؐ ِ کون و مکاں آ گئے ہیں

وہ سرکار جب سے ہمارے ہوئے ہیں

خوشیاں مناؤ رل کے آیا حبیب پیارا

جائے گی ہنستی ہوئی خلد میں اُمت ان کی

میرے تو کریموں کی بات ہی نرالی ہے