سویا ہوا نصیب جگا دیجئے حُضُور

سویا ہوا نصیب جگا دیجئے حُضُور

میٹھا مدینہ مجھ کو دکھا دیجئے حُضُور


اب ’’چل مدینہ‘‘ کا مجھے مُژدہ سنائیے

روتے ہوئے کو اب تو ہنسا دیجئے حُضُور


پھر سبز گنبد اور وہ مینار کی بہار

غوث و رضا کا صدقہ دکھادیجئے حُضُور


مِسکین ہوں ،غریب ہوں پلّے نہیں ہے کچھ

خرچہ سفر کا دیجئے نا دیجئے حُضُور


عَرَفات اور مُزْدَلِفہ اور منٰی چلوں

حج کرلوں حق سے اِذْن دلا دیجئے حُضُور


خُلَفائے راشِدین کے صدقے میں یانبی

خوابوں میں اپنا جلوہ دکھا دیجئے حُضُور


سائل غمِ مدینہ کا ہوں شاہِ بحروبر

مجھ کو غمِ مدینہ شہا دیجئے حُضُور


احمدرضا کا واسِطہ الفت کا ساقیا

مجھ کو چھلکتا جام پِلا دیجئے حُضُور


ہروقت سوزِ عشق میں تڑپا کروں شہا

آگ ایسی میرے دِل میں لگا دیجئے حُضُور


زَہرا کے لاڈلوں کا وسیلہ میں لایا ہوں

پَژمردہ دل کو میرے کھِلا دیجئے حُضُور


صَدْقہ شہیدِ کربلا کا شاہِ انبِیا

دیوانۂ مدینہ بنا دیجئے حُضُور


یامصطَفٰے میں الفتِ دنیا میں پھنس گیا

اِس قید سے خُدارا چُھڑا دیجئے حُضُور


پُرخار وادیوں میں بھٹک کے میں رہ گیا

بُھولے ہوئے کو راہ دکھا دیجئے حُضُور


توبہ نِباہ میں نہیں پاتا ہوں یانبی!

اب استِقامت آپ شہا دیجئے حُضُور


ڈر لگ رہا ہے آہ!جہنّم کی آگ سے

بخشِش کا مجھ کو مُژدہ سنا دیجئے حُضُور


’’قفلِ مدینہ‘‘ دیجئے مُرشِد کا واسِطہ

خاموش رہنا مجھ کو سکھا دیجئے حُضُور


عطارِؔ بدخصال کا عصیاں شِعار کا

دل مرُدہ ہوچکا ہے جِلا دیجئے حُضُور

شاعر کا نام :- الیاس عطار قادری

کتاب کا نام :- وسائلِ بخشش

دیگر کلام

دو جگ دی شان حضور نیں

کر جو تیرا جی اے آقا

کی شان اوہدی دسیئے جو شان خدا ہووے

تھم گیا عالمِ دنیا کا چلن پل بھر میں

اے وارث دنیا و دیں صد شکر ہوں منگتا تیرا

پرچم کشا جمال ہے شہرِ حبیبؐ میں

مدینے سے جدائی کی گھڑی ہے

کِس چیز کی کمی ہے مولیٰ تری گلی میں

اذنِ طواف لے کے شہِؐ دیں پناہ سے

جیہڑا تیرے نال جاوے لگ سوہنیاں