تصورات میں روشن دیار دیکھتا ہوں

تصورات میں روشن دیار دیکھتا ہوں

تو اپنے گِرد کرم کا حصار دیکھتا ہوں


مشامِ جاں میں اترتا ہے جب خیالِ حضور

رگِ حیات میں رقصاں قرار دیکھتا ہوں


دیارِ نور کی گلیوں کی سیر کرتے ہوئے

ہوا کے دوش پہ خود کو سوار دیکھتا ہوں


غموں کے کوہِ گراں کو سمجھتا ہوں رائی

مدینے والے کو جب غم گسار دیکھتا ہوں


یہ چاند گنبدِ اخضر کو دیکھتا ہوگا

میں اس لئے اسے دیوانہ وار دیکھتا ہوں


نظر اٹھانا ادب کے خلاف لگتا ہے

نظر جھکا کے درِ مشک سار دیکھتا ہوں


مرا یہ خواب ہے فرقت کی دھوپ میں چھاؤں

میں کوئے رشکِ جناں بار بار دیکھتا ہوں

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- انگبین ِ ثنا

دیگر کلام

میکدے سے نہ کوئی جام سے کام

یہیں آنکھ انسانیت کی کھلی ہے

الفاظ نہیں ملتے سرکار کو کیا کہیے

پیار نبیؐ دے پر لائے نیں شعراں نوں

مولائے لا شریک کی وحدت پہ ناز ہے

پلانے کی تمنا ہے نہ پینے کی تمنا ہے

گرد گرد لمحوں میں

اڑان فکر و فن کی پھر سے کامیاب ہو گئی

سر صبح سعادت نے گریباں سے نکالا

ساری دُنیا توں نرالا اے مدینے والا