انگبین ِ ثنا

کر مرے تِشنہ ہنر پر بھی کرم یا اللہ

بڑھے گی الفتِ رسول بے بہا درود پڑھ

خامۂ اشفاق ہے مبہوت فن سجدے میں ہے

نبی کی تخلیق رب کا پہلا کمال ہوگا یہ طے ہوا تھا

شہِ کون و مکاں موجود شب جائے کہ من بودم

ہر خوشبو کے ہر جھونکے کی پہلی چاہ مدینہ ہے

لفظ ہیں خاک مرے اور زباں مٹی ہے

دیارِ نور ہے عطائے بے کراں زمین پر

جبیں کو شاہ کے در کا نیاز مند کیا

انگلی کا اشارہ ملتے ہی یک لخت قمر دو لخت ہوا

مدحت کے لئے لفظ مجھے دان کرو ہو

جاری چودہ صدیوں سے فیضِ نعلِ سرور ہے

قطرے کے سوالی کو عطا کر دو ہو دریا

فلک پہ موجود چاند کو

نہ فکر مند ہو دامن میں جس کے زر کوئی نئیں

سر بہ خم کاسہ بکف کوچۂ اقدس میں رہے

میں بھی گداگر کہلاتا ہوں شاہِ زمن کی چوکھٹ کا

حرا کا چاند عرب میں طلوع ہو گیا ہے

اے صاحبِ الطاف و کرم ابرِ خطا پوش

حبیبِ ربِ دو عالم کا نام چومتے ہیں

ہے اگر تجھ کو جستجوئے حیات

مدینے میں بھریں گے کاسہ و دامان کہتے ہیں

جمال با کمال رنگ و نور لاجواب ہے

درودِ پاک سے دیوار و در آباد رکھتا ہوں

توسے لگا کر پیت نبی جی

حضور دید کی پیاسی درود خو آنکھیں

اسمِ سرکار کا ضو بار گہر چوم لیا

عجز و آدابِ محبت کا جو حامل نہیں ہے

شاخِ ارمان درِ نور سے لف دیکھتے ہیں

دیدِ شاہ کا مرہم گر بہم نہیں ہوگا