جبیں کو شاہ کے در کا نیاز مند کیا

جبیں کو شاہ کے در کا نیاز مند کیا

عروج اپنے مقدر کا چار چند کیا


سجا ہے آنکھ کی پتلی میں رخِ شاہِ زمن

شبیہِ نور نے پانی کا گھر پسند کیا


لبوں نے اسمِ کرم کے لیے کئی بوسے

لبوں نے آج کئی بار نوش قند کیا


خدا نے نعت میں رکھ کر حروف کی قسمت

حروفِ عجز کو آمادۂ زقند کیا


برائے نعت ستارے سمیٹنے کے لئے

ہنر کو شوق، رگِ جان کو کمند کیا


لگائی آنکھوں سے تصویر سبز گنبد کی

سرُورِ ہجرِ مدینہ کو وصل مند کیا


لگا کے راہِ مدینہ پہ اپنی سوچوں کو

شعارِ فکر کو اشفاق سر بلند کیا

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- انگبین ِ ثنا

دیگر کلام

نبی کی تخلیق رب کا پہلا کمال ہوگا یہ طے ہوا تھا

شہِ کون و مکاں موجود شب جائے کہ من بودم

ہر خوشبو کے ہر جھونکے کی پہلی چاہ مدینہ ہے

لفظ ہیں خاک مرے اور زباں مٹی ہے

دیارِ نور ہے عطائے بے کراں زمین پر

انگلی کا اشارہ ملتے ہی یک لخت قمر دو لخت ہوا

مدحت کے لئے لفظ مجھے دان کرو ہو

جاری چودہ صدیوں سے فیضِ نعلِ سرور ہے

قطرے کے سوالی کو عطا کر دو ہو دریا

فلک پہ موجود چاند کو