دیارِ نور ہے عطائے بے کراں زمین پر

دیارِ نور ہے عطائے بے کراں زمین پر

کریم رب نے رکھ دیا ہے آسماں زمین پر


حضور! سنگِ در پہ حاضری کا اذن ہو عطا

گزر نہ جائے عمر میری رائیگاں زمین پر


زمیں کا افتخار ہیں نعالِ شاہ کے نشاں

فرشتے چومتے تو ہوں گے وہ نشاں زمین پر


حضور کے کرم سے وہ حجر بھی بولنے لگے

پڑے ہوئے تھے جو ازل سے بے زباں زمین پر


قیامِ حشر تک ہمیں بہت لہو رلائے گی

رقم ہے کربلا میں ایسی داستاں زمین پر


نزولِ قدسیاں ہے صبح شام بہرِ حاضری

دیارِ مصطفیٰ ہے ان کا میزباں زمین پر


مواجہ پر ہوا ہے کاسۂ گدائی مطمئن

یہی جگہ ہے بابِ کنزِ در فشاں زمین پر


حضور کے سبب زمین پر ہیں ساری رونقیں

حضور کے سبب خدا ہے مہرباں زمین پر


جگہ بنا لیں سائبانِ قرب میں درود سے

نہیں ملے گا اور کوئی سائباں زمین پر


جہاں سے روشنی کی بھیک پا رہے ہیں مہر و مہ

اسی گلی میں سر بہ خم ہے کہکشاں زمین پر

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- انگبین ِ ثنا

دیگر کلام

میرے آقا کملی والڑیا آج کرم دا مینہ برسا جانا

حکم ہے عالَم کو دیوانے کا دیوانہ رہے

راہِ حق میں جو سرِ راہ مدینہ آیا

ہے رحمتِ یزداں کا امیں گنبدِ خضریٰ

حبِ سر تاج رسولﷺ دل میں بسا کر دیکھو

حرم کی اذان حسین اللہ اللہ

کعبہء کعبہ کے خوش منظر نظاروں کو سلام

کرم ہے آپﷺ کا آقا

ہیں آپ سرورِ کونین یارسول اللہؐ

خاک بوس اُن کے فلک زیرِ قدم رکھتے ہیں