حکم ہے عالَم کو دیوانے کا دیوانہ رہے

حکم ہے عالَم کو دیوانے کا دیوانہ رہے

ان سے جو بیگانہ ہے ،یہ اس سے بیگانہ رہے


’’اِنَّمَا یَعمُر‘‘ کا جلوہ یوں حسینانہ رہے

‘‘ مسجدیں آباد ہوں ، ویران بت خانہ رہے‘‘


حکمِ ربیّ ہے یہاں " لاَ تَرفَعُو اَصوَاتَکُم"

روضۂِ شہ پر تنفُّس بھی عدیمانہ رہے


میں سمجھتا ہوں کہ عجز و انکساری نعت ہے

حرف ورنہ کب محیطِ وصفِ جانانہ رہے


سیِّد الاصناف کے قد کے تعیُّن کےلیے

اے ثنا گو ! طرزِ نعتِ شہ ادیبانہ رہے


عبد دیگر عبدہٗ چیزے دگر" ایں جائے غور

منتظِر ہے یہ ، وہ محوِ دیدِ خاصانہ رہے


ماسوائے جان و دل کچھ پاس مفلس کے نہیں

کاش مقبولِ سگِ دربار نذرانہ رہے


فوج شہرِ نور سے آ جائے گی بہرِ مدد

شامِ غم کو چاہیے ہم سے بعیدانہ رہے


مدحتِ جانِ سخن سے حرف کو دیجے بقا !

حاصلِ گفتار کی یادوں سے یارانہ رہے


مصحفِ رخ کی تلاوت کو طہارت کےلیے

گردِ چشمِ شوق چھوٹا سا وضو خانہ رہے


اوّلاً تو گنبدِ اَخضر کے سائے میں مروں

ورنہ کم از کم مِری تربت بقیعانہ رہے


اے معظمؔ ! دولتِ حرفِ ثنا سے ہیں غنی

کیوں نہ اپنے پاس پھر جنّت کا بیعانہ رہے

شاعر کا نام :- معظم سدا معظم مدنی

کتاب کا نام :- سجودِ قلم

دیگر کلام

دل کو سُکوں چمن میں نہ ہے لالہ زار میں

ہو گیا فضلِ خدا مُوئے مبارَک آگئے

بندہ مٹ جائے نہ آقا پہ وہ بندہ کیا ہے

جو سینے کو مدینہ اُن کی یادوں سے بناتے ہیں

حنین و بدر کے میدان شاہد ہیں

تنویرِ شش جہات ہے روپوشِ نقش پا

یہی ہے آرزو ایسی کوئی تدبیر ہو جائے

کملی والے جے ہو یا نہ تیرا کرم

بس رہا ہے نظر میں مدینہ دل میں ارمان ہیں حاضری کے

ذرّہ ذرّہ مسکرا کر آسماں بنتا گیا