معظم سدا معظم مدنی

مفہوم سے اونچا ترا عرفان ہے مولا

یہ ہے بزمِ رحمتِ دو جہاں

لِلّہ الحمد کہ ہم نے اسے چاہا آہا

تنویرِ شش جہات ہے روپوشِ نقش پا

آج کیا وقت سحر مطلعِ تازہ اترا

لہجۂِ گل سے عنادل نے ترنم سیکھا

تاجِ توصیفِ نبی بر سرِ ایمان چڑھا !

یہی انجامِ قال و قیل ہوا

نظر سے ذروں کو سورج کے ہم کنار کیا

ہمیشہ جانبِ حسنِ عمل روانہ کیا

ذوقِ نعتِ شہِ ابرار نے سونے نہ دیا

ہر پھول کو فیضاں تری تعطیر سے پہنچا

فتحِ قفلِ سعادت ہے کارِ ثنا

جن کی مدح و ثنا ہے کام مِرا

جھاڑ دے خاک قدم گر تری ناقہ آقا

سورج ہے فقط ایک تری راہ کا ذرہ،

شافعِ محشر کا واصف جو یہاں ہوجائے گا

اُس چاہِ ذقن سے ہے مہِ مصر ضیا یاب

حرف تصویرِ تحیر ہے ،ادب مہر بہ لب

میرا قلم ہے نعت کے اِظہار کے قریب

بحرِ نورِ ذات ہے کوئے حبیب

تَبشیر بَہ فیضِ عام ہوئی

دور ہے اس واسطے مجھ سے بلا و شر کی دھوپ

نثار چاند ہے ، قربان آفتاب کی دھوپ

کس گل کی اب ضرورت اے خاتمِ نبوّت !

جلوہ فرما ہو اگر شاہِ اُمَم کی صورت

نطقِ حق تیری بات اے طَویلُ السُّکوت

جلوۂ ذات لیے آئی ہے معراج کی رات

کرم پر نہ کیوں ہو تلی ان کی چوکھٹ

بنے دیوار آئینہ ترے انوار کے باعث