ذوقِ نعتِ شہِ ابرار نے سونے نہ دیا

ذوقِ نعتِ شہِ ابرار نے سونے نہ دیا

شب مجھے قسمتِ بیدار نے سونے نہ دیا


ان کے رخسار کے تذکار نے سونے نہ دیا

رات بھر کثرتِ انوار نے سونے نہ دیا


سوئے عشاقِ نبی قبر میں تمثالِ عروس

کون کہتا ہے کہ سرکار نے سونے نہ دیا ؟


رات بھر قلب رہا محوِ ثنائے سرکار

ان کی زلفوں کے گرفتار نے سونے نہ دیا


میرا گل اشک بہاتا رہا شبنم کی طرح

تھا جو امت سے ، اسی پیار نے سونے نہ دیا


بے سبب تو نہیں شب بھر یہ ستارے گننا

چاند کو یادِ رخِ یار نے سونے نہ دیا


جاگے خاصانِ خدا بہرِ تہجد ،کہ انہیں

لذتِ گریۂِ اَسحار نے سونے نہ دیا


باتیں کرتا رہا تاروں سے تِرا ذرۂِ نعل

شادیِٔ بوسۂِ پیزار نے سونے نہ دیا


منکرِ شانِ ابو بکر و عمر ! اتنا سوچ !

’’غیر کو پاس کبھی یار نے سونے نہ دیا‘‘


یادِ گیسوئے نبی سر پہ رہی سایہ فگن

رات بھر مجھ کو شبِ تار نے سونے نہ دیا


شوقِ دیدار پہ لکھے جو معظمؔ ! ہم نے

انہیں اشعار کی تکرار نے سونے نہ دیا

شاعر کا نام :- معظم سدا معظم مدنی

کتاب کا نام :- سجودِ قلم

دیگر کلام

نگاہِ لُطف کے اُمیدوار ہم بھی ہیں

محمد ﷺ سے الفت اُبھارے چلا جا

بیٹھتے اُٹھتے نبیؐ کی گفتگو کرتے رہے

ہے یہ سچ کہ حسنِ عالم میں کوئی کمی نہیں ہے

نعت جب تحریر کی الفاظ تارے بن گئے

جس کا وجود رشد و ہدیٰ کا جمال ہے

اصل ان کی نور ذات ہے، صورت بشر کی ہے

بابِ شاہِ عرب ہے چلے آئیے

جا کے دروازے پہ اوروں کے صدا دوں کیسے

نصیب ذرے کا پھر آفتاب ہو جائے