جا کے دروازے پہ اوروں کے صدا دوں کیسے

جا کے دروازے پہ اوروں کے صدا دوں کیسے

خود کو سرکارﷺ کی نظروں سے گرادوں کیسے


ہاتھ پھیلاتے نہیں رحمتِ عالم کے فقیر

اس حقیقت کو میں دانستہ بھلادوں کیسے


ان کا ہر لفظ ہے وابستہء فیضانِ رسول

بے وضو اپنی کوئی نعت سنا دوں کیسے


کالی کملی ہی چھپالے تو چھپالے اس کو

فردِ عصیاں میں کہیں اور چھپا دوں کیسے


گرچہ تصویریں سجانے کا نہیں حکم مگر

حرم پاک کی تصویر ہٹادوں کیسے


خواب میں جس شہ خوباں نے نوازا ہے مجھے

خال و خد اس کے میں لفظوں میں بتا دوں کیسے


یادِ طیبہ کے جو روشن ہیں مرے دل میں چراغ

ان چراغوں کو کہو خود ہی بجھادوں کیسے


اس سب کچھ میں بھلا سکتا ہوں اقبؔال مگر

غم گُسارانِ مدینہ کو بھلادوں کیسے


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کوئی نبیؐ کو مِرا حال کیا سنائے گا


یہ میرے آنسو یہ لہجہ کہاں سے لائے گا

مرے تو سینے میں ہر سانس تک انہی کی ہے


وہ کون ہے جو انہیں دل میں یوں بسائےگا

مرے تو قلب کی دھڑکن بھی ہے انہی کا کرم


جو ان سے مجھ کو ملا ہے وہ کون پائے گا

بغیر دیدہء بینا بغیر زادِ سفر


مِری طرح درِ اقدس پہ کون جائے گا

مجھے تو خود مِرے آقا نے یاد فرمایا


مجھے وہاں کا سفر کیا کوئی کرائے گا

مِرے دل پہ رقم ہے پتہ مدینے کا


مجھے وہاں کا پتہ کیا کوئی بتائے گا

مجھے تو نعت عطا ہوتی ہے مدینے سے


مجھے طریقِ ثنا کیا کوئی سکھائے گا

دیارِ پاک میں کیا کچھ مجھے نظر آیا


نہیں بتاؤں گا تم کو یقیں نہ آئے گا

جہاں بھی نعت کی محفل سجے گی اُس کے بعد


یقین ہے تمہیں اقبؔال یاد آئے گا

شاعر کا نام :- پروفیسراقبال عظیم

کتاب کا نام :- زبُورِ حرم

دیگر کلام

شاناں اُچیاں نے سرکار دیاں

در خیر الوریٰ نوں ویکھ آیاں

انمول خزانوں کا خزینہ ہے مدینہ

پنجابی ترجمہ: ز رحمت کُن نظر بر حالِ زارم یارسُولؐ اللہ

آنکھوں میں بس گیا ہے مدینہ حضور کا

خدا کی حمد زباں پر نبی کی مدحت ہے

خدا مجھ کو عطا کر دے گا درشن آپ کا ارفع

اب تو در پہ خدارا بلا لیجئے یا نبی تیرے دربار کی خیر ہو

یوں ذہن میں جمالِ رسالت سماگیا

آپ کی عنایت سے دن مرے گزرتے ہیں