لِلّہ الحمد کہ ہم نے اسے چاہا آہا

لِلّہ الحمد کہ ہم نے اسے چاہا آہا

جس کے ہر وصف کو خالق نے سراہا آہا


چودھویں رات کا چاند ان کو کہا ہے رب نے

از روئے علمِ عَدَد دیکھیے ! " طٰہٰ " آہا


نامہ چمکا بہ ثنائے رخِ مہرِ طیبہ

دھل گیا مدحتِ گیسو سے سیاہا آہا


تیرا دربار ہے دربارِ خدا ، اس پہ دلیل

حکمِ جاؤوک ہے کونین پناہا آہا !


چاند پر داغ ہیں ، خور گرم ہے ، لیکن تیرا

چہرہ ہے صاف خنک مہر کُلاہا ! آہا


مصدرِ کل ہے ترا نور ، عوالم مشتق

مرجعِ کُل تِرا دربار ہے شاہا آہا


اِسمِ اعظم ہے تِرا کنجیِ قفلِ مقصود

یادِ جاں بخش تِری ردّ بلاہا آہا


نُصرتِ رحمت ِ عالم وہاں دم میں پہنچی

امّتی جب بھی کسی جا سے کراہا آہا


یادِ گیسو میں لبِ شام پہ "واللیل " کا وِرد

صبح پھوٹی ہے بہ تذکارِ " ضُحٰھا " آہا


ہم سے عاصی تو خطائوں پہ بھی مجرم رہے

پِھر بھی آقا نے تعلّق کو نباہا آہا


آج محفل میں سخن ہائے معظمؔ سن کر

سارے یارانِ ثنا بول اٹھے آہا آہا

شاعر کا نام :- معظم سدا معظم مدنی

کتاب کا نام :- سجودِ قلم

دیگر کلام

نظر کرم ہو شاہ مدینہ

تم ہی ہو چین اور قرار اِس دلِ بے قرار میں

آقائے دو جہاں مرے سرکار آپ ہیں

زہد و تقویٰ پہ نہ تکمیلِ عبادت پہ ہے ناز

انمول خزانوں کا خزینہ ہے مدینہ

میری زندگی کا تجھ سے یہ نظام چل رہا ہے

میرے محبوب آئے رحمتاں بہار ہو گیّاں

ظُلمتوں نے غُبار ڈالا ہے

دیدار دا عالم کیا ہوسی

نبی نال لاونیاں جے سچیاں توں یاریاں