سورج ہے فقط ایک تری راہ کا ذرہ،

سورج ہے فقط ایک تری راہ کا ذرہ، اے ناقۂ قصوا!

رفتار جہاں ہے تری رفتار کا صدقہ، اے ناقۂ قصوا!


جب نازشِ افلاک ہے تو مَرکبِ احمد ! اس درجہ ممجّد

پھر کیا ہے ترے سامنے افرازِ ہمالہ،اے ناقۂ قصوا!


اس بات میں تخصیص بہائم کی نہیں ہے ،یہ عینِ یقیں ہے

انسان بھی ٹھہرا ہے ترا کشتۂِ غمزہ ،اے ناقۂ قصوا!


صحرا کو جو کرتے ہیں چمن،تیرے قدم ہیں،تصویرِ ارم ہیں

جس رہ پہ لگیں ، کردیں سدا کےلیے مہکا ،،اے ناقۂ قصوا!


کچھ اور ہی انوارِ جمال آئیں گے تن پر گر اپنے بدن پر

اترن ترے قدموں کی ذرا سی مَلے حَورا ،اے ناقۂ قصوا!


مہکار پہ تیری ہے فدا نافۂِ آہو اور خلد کی خوشبو

دیوانۂِ قامت ہے ترا شجرۂِ طوبیٰ ،اے ناقۂ قصوا!


حیرانِ کرامات ہیں ، قربانِ مراتب شاہوں کے مَراکب ،

ہے دشتِ غزالاں ترا خود رفتۂ جلوہ،اے ناقۂ قصوا!


واروں میں تری گل بدنی پر چمنستاں ،اور دشتِ حسیناں

رکھوں ترے قدموں میں شہنشاہیِ دارا ،اے ناقۂ قصوا!


کر آمد پُر خیر کے فیضاں سے مکرم ،یوں ٹھہروں معظمؔ

ہو یثربِ سینہ مِرا آقا کا مدینہ ،اے ناقۂ قصوا!

شاعر کا نام :- معظم سدا معظم مدنی

کتاب کا نام :- سجودِ قلم

دیگر کلام

ذوقِ نعتِ شہِ ابرار نے سونے نہ دیا

ہر پھول کو فیضاں تری تعطیر سے پہنچا

فتحِ قفلِ سعادت ہے کارِ ثنا

جن کی مدح و ثنا ہے کام مِرا

جھاڑ دے خاک قدم گر تری ناقہ آقا

سورج ہے فقط ایک تری راہ کا ذرہ،

شافعِ محشر کا واصف جو یہاں ہوجائے گا

اُس چاہِ ذقن سے ہے مہِ مصر ضیا یاب

حرف تصویرِ تحیر ہے ،ادب مہر بہ لب

میرا قلم ہے نعت کے اِظہار کے قریب

بحرِ نورِ ذات ہے کوئے حبیب