لفظ ہیں خاک مرے اور زباں مٹی ہے

لفظ ہیں خاک مرے اور زباں مٹی ہے

شاہِ کونین کے شایان کہاں مٹی ہے


میں بھلا مدحتِ سرکار کروں کس منہ سے

کیا ہے اوقات مری، نام و نشاں مٹی ہے


فردِ اعمال میں سجدے ہوں اگرچہ لاکھوں

حبِ سرکار نہیں ہے تو میاں، مٹی ہے


آپ کے سامنے مہتاب ہے مدھم مدھم

روبرو آپ کے خورشیدِ جہاں مٹی ہے


ان کا دیدار ہے بس وجہِ کشش جنت کی

ان کا دیدار نہیں ہے تو جناں مٹی ہے


ہے جسے آپ سے نسبت وہ زمیں ہے سونا

ما سوا اس کے بلا وہم و گماں مٹی ہے


ایک بھی لفظ ہو مقبول تو ناعت کو بہت

ورنہ تمدیح کا ہر کوہِ گراں مٹی ہے

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- انگبین ِ ثنا

دیگر کلام

دربار مصطفیٰ نے جھولی وچھان والے

ایمان کی بنیاد محمدؐ کی محبت

جدوں کرئیے ذکر مدینے دا

اوہنوں جان کہواں یا جان دی وی اُس سوہنے نوں میں جان آکھاں

مظہرِ ذوالجلال میرے حضورؐ

نہ مرنے کا غم ہے نہ جینے کی خواہش

مجھ پر شہِ عرب کا ہر دم کرم رہے

سخاوت ہی سخاوت ہے محبت ہی محبت ہے

جہاں ہے منور مدینے کے صدقے

مدینے پاک کی رنگین فضائیں یاد آتی ہیں