انگلی کا اشارہ ملتے ہی یک لخت قمر دو لخت ہوا

انگلی کا اشارہ ملتے ہی یک لخت قمر دو لخت ہوا

مختارِ جہاں نے جو چاہا ہر کام ہوا بر وقت ہوا


عود و عنبر بھی کاسہ بکف سلطانِ زمن کی چوکھٹ پر

جس راہ سے گزرے آپ وہاں پہروں خوشبو کا گشت ہوا


ماں کی آغوش میں جس لمحے گونجی تھی اذاں پہلی پہلی

دل کے کاغذ پر اس لمحے سے نامِ محمد ثبت ہوا


اک پل بھی نظامِ روئے زمیں آقا کے بغیر نہ چل پایا

معراج کی شب معراج کا پل واللہ زمیں پر سخت ہوا


صبحِ صادق تھی جلوہ فگن بارہ تھی ربیعِ اول کی

ظلمت کو ملا حکمِ رخصت پرُ نور عرب کا دشت ہوا


وہ بھوک نہیں تربیت تھی کیسے کرنی ہے فاقہ کشی

جو آپ نے پیٹ پہ باندھا تھا وہ پتھر تھا، خوش بخت ہوا


سئیات کی گٹھڑی کاندھے پر حسنات کی پونجی کچھ بھی نہیں

عقبیٰ کا سفر مشکل تھا مگر مدحت کا حوالہ رخت ہوا

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- انگبین ِ ثنا

دیگر کلام

میری جانب بھی ہو اک نگاہِ کرم، اے شفیع الواریٰ، خاتم الانبیاء

دو جہاں میں کوئی تم سا دوسرا ملتا نہیں

لَم یَاتِ نَظِیْرُکَ فِیْ نَظَرٍمثلِ تو نہ شُد پیدا جانا

جس کی منزل بھی درِ سیدِ ابرارؐ نہیں

اللہ غنی ، وہ بھی کیا ذاتِ گرامی ہے

اُن کا روضہ نظر کے ہُوا سامنے

شانِ رسالت ہم سے نہ پوچھو، پوچھو پوچھو قرآں سے

تاریکیاں دے فاصلے زُلفاں تے مُک گئے

چشم در چشم اک آئینہ سجا رکھا ہے

سَرداروں کے سَردار ہَیں آقائے دوؐعالم