جس کی منزل بھی درِ سیدِ ابرارؐ نہیں

جس کی منزل بھی درِ سیدِ ابرارؐ نہیں

ہو گا انسان مگر وہ مرا دلدار نہیں


صرف دنیا میں نہیں حشر کے دن بھی لوگو

دامنِ سرورِ عالم کسے درکار نہیں


روح بھی اپنی درودوں سے معطر رکھنا

چند آنسو تو وہاں قرب کا معیار نہیں


در بدر قریہ بہ قریہ ہی پھرے گی دانش

مرکزِ فکر اگر کوچہِ سرکارؐ نہیں


اُنکے قدمین کا صدقہ ہے یہ ساری رونق

ورنہ دنیا تری قسمت میں تو انوار نہیں


نسبتِ سرورِ کونینؐ کا وہ نام نہ لے

لہجے کی تلخی پہ جو شخص بھی مختار نہیں


ہر کڑے وقت میں اُنکا ہے تصور مرہم

اُنکی چاہت ہے تو پھر جینا بھی دشوار نہیں


تیری نسبت پہ فقط ناز ہے آقائے شکیلؔ

بن تمہارے مرا کوئی بھی طرفدار نہیں

شاعر کا نام :- محمد شکیل نقشبندی

کتاب کا نام :- نُور لمحات

دیگر کلام

شوقِ دیدار ہے طاقِ امید پر

کدی آقا در تے بلا سو کہ ؟ کوئی ناں

جمال سب سے الگ ہے جلال سب سے الگ

اِلہام جامہ ہے ترا

دلدار جے راضی ہوجاوے دنیا نوں مناؤن دی لوڑ نئیں

دل تمہاری دید کا جس دن سے خواہاں ہو گیا

ہمیں کوچہ تمہارا مِل گیا ہے

چل چل مرے دل طیبہ کی طرف آقا کا بلاوا آیا ہے

شکرِ الطافِ خدا کی مظہر

نبی رازدارِ جلی و خفی ہے