سر بہ خم کاسہ بکف کوچۂ اقدس میں رہے

سر بہ خم کاسہ بکف کوچۂ اقدس میں رہے

گوہرِ جود و عطا دامنِ بے کس میں رہے


میرے سینے میں رہے خلدِ مدینہ کی تڑپ

جستجوئے شہِ ابرار ہر اک نس میں رہے


خود رہے ٹاٹ کے پیوند لگے کپڑوں میں

ان کے پروردہ سدا ریشم و اطلس میں رہے


خواہشِ دیدِ شہِ کون و مکاں لاتی ہے

ورنہ یوں کون بھلا قبر کے محبس میں رہے


مژدۂ صبحِ مدینہ ہو عنایت یا رب

کیوں غلامِ شہِ انوار اماوس میں رہے


سلکِ مدحت نے جنہیں جوڑ دیا تھا باہم

عمر بھر شیر و شکر لوگ وہ آپس میں رہے


بہرِ مدحت جسے جب چاہا جھکایا میں نے

دست بستہ سبھی الفاظ مرے بس میں رہے


شہرِ انوار میں اشفاق یہ احساس ہوا

ہم عبث آج تلک ورطۂ عسعس میں رہے

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- انگبین ِ ثنا

دیگر کلام

ہے یہ غریبِ حرف پہ احسانِ مصطفٰی

جو ہو چکا ہے جو ہو گا، حضور جانتے ہیں

حسن و جمالِ روضہء اطہر نظر میں ہے

لب پہ جاری نبیؐ کی ثنا چاہیے

پتھر کی پتھر ہی رہتی تیری اگر نہ ہوتی

اوتھے سر عاشق سرکار دا خم ہندا اے

ہے بڑیاں شاناں والا یار میرا

کر ذکر مدینے والے دا

کبھی وہ گُنبدِ خضرٰی مدینے جا کے دیکھیں گے

جب دعا میں روغنِ نامِ نبی ڈالا گیا