جو ہو چکا ہے جو ہو گا، حضور جانتے ہیں

جو ہو چکا ہے جو ہو گا، حضور جانتے ہیں

تیری عطا سے خدا یا، حضور جانتے ہیں۔


اے علمِ غیب کے منکر خدا کو دیکھا ہے؟

اور تجھے بھی کہنا پڑے گا، حضور جانتے ہیں۔


منافقوں کا عقیدہ وہ غیبت دان نہیں،

اور صحابہ کا عقیدہ، حضور جانتے ہیں۔


وہ مومنوں کی تو جانوں سے بھی قریب ہوئے،

کہاں سے کس نے پکارا، حضور جانتے ہیں۔


ہران یہ کہنے لگی چھوڑ دے مجھے سیاہ،

میں لوٹ آؤں گی واللہ، حضور جانتے ہیں۔


ہران نے اونٹ نے چر یوں نے کی یہی فریاد،

کہ ان کے غم کا مدعا، حضور جانتے ہیں۔


بلارہے ہیں نبی جا کے اتنا بول اسے،

درخت کیسے چلے گا، حضور جانتے ہیں۔


کہاں ماریں گے ابو جہل و عتبہ و شیبہ،

کہ جنگِ بدر کا نقشہ، حضور جانتے ہیں۔


اسی لیے تو سلایا ہے اپنے پہلو میں،

کہ یارِ گھر کا رتبہ، حضور جانتے ہیں۔


عمر نے تن سے جدا کر دیا تھا سر جس کا،

وہ اپنا ہے کہ پرایا، حضور جانتے ہیں۔


نبی کا فیصلہ نہ مان کر وہ جان سے گیا،

مزاج عمر کا ہے کیسا، حضور جانتے ہیں۔


وہی ہے پیکرِ شرم و حیا و ظلم نوراں،

مقام ان کی حیا کا، حضور جانتے ہیں۔


یہ خود شہید ہیں، بیٹے نواسے پوتے شہید،

علی کی شانِ یگانہ، حضور جانتے ہیں۔


ہیں جسکے مولا حضور اُسکے ہیں علی مولا،

ابو تراب کا رتبہ، حضور جانتے ہیں۔


میں ان کی بات کروں یہ نہیں میری آقیت،

کہ شانِ فاطمہ الزہرا، حضور جانتے ہیں۔


جینا میں کون ہے سردار نوجوانوں کے،

حسن، حسین کے نانا، حضور جانتے ہیں۔


نہیں ہے زادِ سفر پاس جن غلاموں کے،

انہیں بھی در پہ بلانا، حضور جانتے ہیں۔


خدا ہی جانے عباد انکو ہے پتہ کیا کیا،

ہمیں پتہ ہے بس اتنا، حضور جانتے ہیں۔


ملائکہ نے کیا یوں تو سجدہ آدم کو،

در اصل کس کو تھا سجدہ، حضور جانتے ہیں۔


وہ کتنا فاصلہ تھا، اور کلام تھا کیسا،

آؤ ادنا اور مآؤہا، حضور جانتے ہیں۔


ملے تھے راہ میں نو بار کس لیے موسٰی،

یہ دیدِ حق کا بہانہ، حضور جانتے ہیں۔


میں چپ کھڑا ہوں مَوجہ پے سر جھکائے ہوئے،

سناوں کیسے فسانہ، حضور جانتے ہیں۔


چھپا رہے ہیں لگاتار میرے عیبوں کو،

میں کس قدر ہوں کمینا، حضور جانتے ہیں۔


میں ان کی بات کروں یہ نہیں میری آقیت،

کہ شانِ فاطمہ الزہرا، حضور جانتے ہیں۔


جو ہو چکا ہے جو ہو گا، حضور جانتے ہیں،

تیری عطا سے خدا یا، حضور جانتے ہیں۔


خدا کو دیکھا نہیں اور ایک مان لیا،

کہ جانتے تھے صحابہ، حضور جانتے ہیں۔


خبر بھی ہے؟ کہ خبر سب کی ہے انہیں کب سے،

کہ جب نہ اب تھا نہ کب تھا، حضور جانتے ہیں۔


کئی انکے ہاتھ میں کیا کیا تجھے خبر نہ مجھے،

خدا نے کتنا نوازا، حضور جانتے ہیں۔

شاعر کا نام :- نامعلوم

دیگر کلام

وہ دور مبارک تھا کتنا وہ لوگ ہی پیارے تھے کتنے

ہوئیں آرائشیں جو اِس قدر سارے زمانے کی

شافعِ روزِ محشر ہمارے نبی

وہ جن کی یاد سے دل کا مکان روشن ہے

جب اتار دیتا ہوں، حرفِ نعت کاغذ پر

زمیں تیری خاطر بچھائی گئی ہے

خاک کو عظمت ملی سورج کا جوہر جاگ اُٹھا

آسمانِ نعت پر جس وقت آیا قافیہ

نیویں اے اسمان دی گردن وی جس دے احسانوں

اگر ایماںکی پوچھو تو یہی ہے