حضور دید کی پیاسی درود خو آنکھیں
دھری ہوئی ہیں مواجہ کے روبرو آنکھیں
سنا تھا نامِ گرامی اذان میں جن کا
انہی کو ڈھونڈتی رہتی ہیں سو بسو آنکھیں
پکار لوں گا مدینے سے اپنے حامی کو
اگر دکھائے گا مجھ کو مرا عدو آنکھیں
دیارِ نور کے ہر بام و در پہ خم ہو کر
زبانِ گریہ سے کرتی ہیں گفتگو آنکھیں
یہ بے شعور زمینِ عجم پہ رہتے ہوئے
تلاش کرتی ہیں بطحا کے رنگ و بو آنکھیں
گزشتہ سال جو آنکھیں تھیں مثلِ تھر تشنہ
ہوئی ہیں یادِ مدینہ میں آب جو آنکھیں
نمازِ وصل کی اک دن اذان ہونی ہے
حریمِ ہجر میں رہتی ہیں با وضو آنکھیں
تلاشِ خوابِ زیارت ہے مقصد و منزل
ضرور ہوں گی کسی روز سرخرو آنکھیں
شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری
کتاب کا نام :- انگبین ِ ثنا