یاد سینے میں سمائی ترے دربار کی ہے
مجھ کو مطلوب گدائی ترے دربار کی ہے
مشک و عنبر مرے لفظوں میں گھلا تب جا کر
گفتگو ہونٹوں پہ آئی ترے دربار کی ہے
کون پوچھے گا سرِ حشر خطا کاروں کو
ہم نے امید لگائی ترے دربار کی ہے
در بدر ہوتا نہیں میرا ہنر مند قلم
راہ توصیف سے پائی ترے دربار کی ہے
ایک میں ہی تو طلب گارِ درِ پاک نہیں
آرزو مند خدائی ترے دربار کی ہے
رشک سے دیکھ رہے ہوں گے فرشتے اس کو
جس کی قسمت میں رسائی ترے دربار کی ہے
قابلِ داد ہے احسان ہوا کا مجھ پر
بوئے خوش دور سے لائی ترے دربار کی ہے
اپنی آنکھوں میں سجانی ہے ہمیشہ کے لئے
ایک تصویر بنائی ترے دربار کی ہے
کاش اشفاقؔ مدینے کا مسافر ہو جائے
جس نے کچھ بات سنائی ترے دربار کی ہے
شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری
کتاب کا نام :- صراطِ حَسّان