یاد اُس دَر کی مِرے دل کو سدا خوش رکھّے

یاد اُس دَر کی مِرے دل کو سدا خوش رکھّے

مجھ کو تا حشر مدینے کی فضا خوش رکھّے


شاد آباد کرے، روزِ جزا خوش رکھّے

خوش وہ جس سے بھی رہیں اُس کو خدا خوش رکھّے


جو مَٹیں اُن کے لیے، جو ہوں نچھاور اُن پر

لبِ کوثر، اُنہیں جنّت کی ہوا خوش رکھّے


مَیں غمِ شاؐہِ دو عالَم میں حضوری چاہوں

غیر ممکن ہے کوئی اور دوا خوش رکھّے


اُنؐ ا دیدار قیامت میں سہی، برحق ہے

یہ جزا ہے تو مجھے ایسی جزا خوش رکھّے


اُن کی خوشنودی خاطر کے لیے کچھ بھی نہیں

شاید ایسا ہو مِرا ذوقِ وفا خوش رکھّے


دردِ دل، سوزِ جگر اُن کی محبت نے دیا

مَیں تو خوش ہُوں، اِسی عالَم میں خدا خوش رکھّے


حشر کی دُھوپ کی پروا ہے، نہ خطرہ، نہ خیال

اُس کو کیا غم؟ جسے رحمت کی گھٹا خوش رکھّے


قرب ہے صر ف ترے دَر کا مسّرت افزا

دُور رہ کر کوئی کیا خود کو بھَلا خوش رکھّے


آستاں سے ترے دُوری پہ پریشاں ہے نصیرؔ

ساری دُنیا کی خوشی بھی اُسے کیا خوش رکھّے

شاعر کا نام :- سید نصیرالدیں نصیر

کتاب کا نام :- دیں ہمہ اوست

دیگر کلام

وہ مقدر کا سکندر ہو گیا

شاہِ مدینہ! طلعت اختر تورے پیّاں میں

مصطفیٰ ذاتِ یکتا آپ ہیں

ہوں مصیبت کے جب ایام رسول عربی

واہ سوہنیاں من موہنیاں اللہ دا توں اللہ تیرا

میں نے دیکھا نہ سنا ہے اُس کو

جو قافلہ بھی مدینے کی سمت جائے گا

لٹا کے بیٹھا ہی تھا چشمِ تر کا سرمایہ

وہ اپنے کردار کی زبانی

کعبے سے اٹھیں جھوم کے رحمت کی گھٹائیں