یہ کون کہتا ہَے ان کو کہیں نہیں دیکھا

یہ کون کہتا ہَے ان کو کہیں نہیں دیکھا

مِری نظر نے تو ہر وقت دلنشیں دیکھا


ہمارا ذَوقِ نظر بھی ہَے داد کے قابِل

کہ اِتنی دُور سے ان کو بہت قریں دیکھا


نگاہِ حُسن کی پیہم نوازشیں توبہ

اُٹھے نہ پاؤں جہاں بھی کوئی حسیں دیکھا


بہشت لے کے جو بیچے نہ جِنس عصیاں کو

گناہگاروں میں ایسا کوئی امیں دیکھا ؟


نہ جانے دِل میں ہیں آنکھوں میں ہیں جگر میں ہیں

ابھی ابھی اُنہیں مَیں نے یہیں کہیں دیکھا


نگاہِ پیرِ مغاں کا یہ فیض ہَے شاید

کہ بادہ خوار جو دیکھا وہ نازنیں دیکھا


بلا کا سوز ہَے اعظؔم تِرے دِل و جاں میں

تِری غزل کا ہر اک شعر آتِشیں دیکھا

شاعر کا نام :- محمد اعظم چشتی

کتاب کا نام :- کلیاتِ اعظم چشتی

دیگر کلام

اُویسیوں میں بیٹھ جا

خمیر حضرت آدم ابھی نہ اٹھا تھا

دو عالم گونجتے ہیں نعرۂ اَللّٰہُ اَکْبَر سے

آ رہی ہے صدا اپنے سینے سے بس

محمدؐ ہیں سمندر تشنگی نعت

کیا خوب ہیں نظارے نبی کے دیار کے

گھر آمنہ دے اور چن چڑھیا جس چانن ہر تھاں لاؤنا ایں

ہیں سامنے قرطاس و قلم کچھ نہیں لکھتے

جس نے اے سرورِ عالمؐ تراؐ اکرام کیا

لو ختم ہوا طیبہ کا سفر