یہ کس شہنشہِ والا کی آمَد آمَد ہے

یہ کس شہنشہِ والا کی آمَد آمَد ہے

یہ کون سے شہِ بالا کی آمَد آمَد ہے


یہ آج تارے زمیں کی طرف ہیں کیوں مائل

یہ آسمان سے پیہم ہے نور کیوں نازِل


یہ آج کیا ہے زمانے نے رنگ بدلا ہے

یہ آج کیا ہے کہ عالم کا ڈَھنگ بدلا ہے


یہ آج کاہے کی شادی ہے عرش کیوں جھوما

لبِ زمین کو لبِ آسماں نے کیوں چوما


سماوا ڈوبا ہوا اور ساوا خشک ہوا

خزاں کا دَور گیا موسمِ بہار آیا


یہ آج کیا ہے کہ بت اَوندھے ہوگئے سارے

یہ آج کیوں ہیں شیاطیں بندھے ہوئے سارے


یہ اَنبیا و رُسل کس کے انتظار میں ہیں

یہ آج لات و ہبل کس سے اِنکسار میں ہیں


یہ آج بُشریٰ لَکُمْ کی صدا کا شور ہے کیوں

یہ مرحبا کی نداؤں میں آج زَور ہے کیوں


کہا جواب میں ہاتف نے لو مبارک ہو

اُٹھو خدا کے حبیب آئے مژدہ ہو تم کو


وہ آئے آنے کی جن کے خبر تھی مدت سے

دعا خلیل کی عیسیٰ کی جو بشارت تھے


بڑھو اَدَب سے کرو عرض اَلسَّلَامُ عَلَیْک

وَ اَھْلِ بَیْتِکَ وَ الْاٰلِ وَ الَّذِیْنَ لَدَیْک


سلام تم پہ خدا کا اور اس کی رحمت ہو

تحیت اس کی ثناء اس کی اس کی نعمت ہو


دُرُود آپ پہ ہر آن بھیجے ربِ وَدُوْد

اور اس کی برکتوں کا روز آپ پر ہو وُرُود


سلام آپ پر نازل کرے صلاۃ و سلام

بلند ذِکر کرے آپ کا ہمیشہ مُدام


یہی ہیں جن کو ملائک سلام کرتے ہیں

انہی کی مَدْح و ثنا صبح و شام کرتے ہیں

شاعر کا نام :- مفتی مصطفٰی رضا خان

کتاب کا نام :- سامانِ بخشش

دیگر کلام

اے شہِ کون و مکاںؐ تحفہء یزدانی ہو

تنہائیوں میں جب بھی پڑھوں نعت مصطفٰی ﷺ

نہ چھوٹے ہاتھ سے کس کر پکڑ لے

کیا ہی ذوق افزا شفاعت ہے تمہاری واہ واہ

گدا سارا عالم محمد دے در دا

قُدرت نے آج اپنے جلوے دکھا دیئے ہیں

امکان میں تجلّیِٔ واجب ہے کیا، نہ پوچھ

نقاب شب عروس مہر نے چہرے سے سرکائی

مدینے میں گلی رحمت کی ایسی پائی جاتی ہے

گرے جب اشک طیبہ میں پلک سے