زندگی جب تھی، یہ جینے کا قرینہ ہوتا

زندگی جب تھی، یہ جینے کا قرینہ ہوتا

رُخ سُوئے کعبہ، تو دل سُوئے مدینہ ہوتا


نعرہ طوفاں میں جو ’’یا شاہِؐ مدینہ‘‘ ہوتا

غیر ممکن تھا کہ غرقاب سفینہ ہوتا


یُوں مدینے میں شب و روز گزرتے اپنے

دن صدی ہوتا، ہر اک لمحہ مہینہ ہوتا


گرمیٔ حُسنِ رسالت کی اِسے تاب کہاں

ورنہ کیوں کفر کے ماتھے پہ پسینہ ہوتا


جلوۂ سرورِؐ کونین سماتا اُس میں

کاش اِتنا تو کُشادہ مِرا سینہ ہوتا


اُسوۂ پاک پہ کرتی جو عمل آج اُمّت

کسی دل میں نہ کَپٹ ہوتی، نہ کِینہ ہوتا


پر توِ حُسنِ نبیؐ کی جو جھلک پڑ جاتی

داغ کہتے ہیں جسے، دل کا نگینہ ہوتا


یہی خواہش تھی، یہی اپنی تمنّا تھی نصیرؔ

میرا سَر، اور درِ شاہِؐ مدینہ ہوتا

شاعر کا نام :- سید نصیرالدیں نصیر

کتاب کا نام :- دیں ہمہ اوست

دیگر کلام

روئے نگارِ زیست کی رنگت نکھر گئی

محفل وچ بیٹھن والیو آج محفل نوں ہور شنگار لوو

دشتِ مَدینہ کی ہے عجب پربہار صبح

تسکینِ روح و قلب کا نغمہ ہے نعتِ پاک

بنے گی آخرت بھی،کر رضا جوئی محمدﷺ کی

مدینے کے والی مدینے بلا لو یہ پیغام لے جا صبا جاتے جاتے

رہے دل میں تری چاہت بسر ہو

حضور! ایسا کوئی انتظام ہو جائے

مصطفیٰ، شانِ قُدرت پہ لاکھوں سلام

خدا کی خلق میں سب انبیا خاص