در پر جو تیرے آ گیا بغداد والے مرشد
مَن کی مُرادیں پا گیا بغداد والے مرشد
لینے شفائے کامِلہ دربار میں اے کامل
بیمارِ عِصیاں آگیا بغداد والے مرشد
جو کوئی تِیرہ بخت یہاں ہوگیا ہے حاضِر
روشن نصیبہ پا گیا بغداد والے مرشد
قدموں میں تیرے دنیا کے جھنجھٹ سے بس نکل کر
جو آگیا سو پا گیا بغداد والے مرشد
جب بھی تڑپ کے کہہ دیا ’’یا غوث المدد‘‘ تب
اِمداد کو تُو آ گیا بغداد والے مرشد
جس نے لگایا زور سے یا غوث کا ہے نعرہ
وہ دشمنوں پہ چھا گیا بغداد والے مرشد
بیداربخت وہ ہے حقیقت میں جس کو جلوہ
تُو خواب میں دِکھا گیا بغداد والے مرشد
ایمان اُس کا بچ گیا شیطان سے ، جو تیرے
ہے’’ سلسلے‘‘ میں آ گیا بغداد والے مرشد
کیوں نَزْع وقَبْر وحشرکا ڈر اَب مُریدوں کو ہو
تو ’’لا تَخَف‘‘ سنا گیا بغداد والے مرشد
دیدار بھی کرادے مجھے کلمہ بھی پڑھا دے
اب وقتِ رِحْلَت آ گیا بغداد والے مرشد
عطّارؔ آکے کاش! یہ دربار میں کہے پھر
بغداد میں پھر آ گیا بغداد والے مرشد
شاعر کا نام :- الیاس عطار قادری
کتاب کا نام :- وسائلِ بخشش