جب موذّن چھیڑتا ہے سلسلہ تکبیر کا

جب موذّن چھیڑتا ہے سلسلہ تکبیر کا

تَیر جاتا ہے فضاؤں میں لہُو شبیّر کا


دِین کی بنیاد جو اپنے سروں پر رکھ گئی

سِیکھ لو اُس آلِ پیغمبر سے ڈھب تعمیر کا


اُس سے پُوچھو مر کے ہو جاتے ہیں زندہ کس طرح

گھونٹ ڈالا جس کی شہ رگ نے گلا شمشیر کا


گرتے گرتے بھی سنبھا لا دے گیا اِسلام کو

آخری ہچکی سے کام اُس نے لِیا شہتیر کا


صبر کی ضربیں لگا کر زیدؔ کے فرزند نے

توڑ ڈالا حلقہ حلقہ ظلم کی زنجیر کا


اے مرے قرآن پڑھنے والو اُس کو بھی پڑھو

اِک صحیفہ وہ بھی ہے قُرآن کی تفسیر کا


کیا بصیرت تھی مظفّؔر ابنِ شہرِ عِلم کی

اپنے ہاتھوں سے لِکھا ہر فیصلہ تقدیر کا

شاعر کا نام :- مظفر وارثی

کتاب کا نام :- کعبۂ عشق

دیگر کلام

مظلوم جب بھی لڑتا ہے

فتح کیوں حاصل نہ ہوتی خون کو

اس قدر تیری حرارت مرے ایمان میں آئے

میری آنکھوں میں اس کا لہو آگیا

جہا ں بھی حق پر ، چلے گا خنجر

تیرے لہُو کو جب لہُو میرا بُلا ئے گا

آئنہ خانے اُسے عکسِ جلی کہتے ہیں

جعفرِ صادق ‘ امامِ صدق پرور پر سلام

عِلم آغاز میں سیپارہء قرآں سے پڑھا

صدق و صفا کے پیکر صدّیقِؓ با وفا ہیں