جو ڈٹ گئے یزید کی فوجوں کے سامنے

جو ڈٹ گئے یزید کی فوجوں کے سامنے

اُکھڑے ہوئے پڑے تھے وہ خیموں کے سامنے


پانی کے ایک گُھونٹ کی قیمت تھی زندگی

لگ ہی گیا ہجوم دکانوں کے سامنے


ٹوٹا ہوا پڑا تھا غرورِ یزیدیت

شہزادگانِ دین کی لاشوں کے سامنے


حورانِ خلد کوثر و تسنیم لائی تھیں

اللہ کی رضائیں تھیں پیاسوں کے سامنے


صبر حسین اصل میں معراجِ صبر تھا

لاشوں کے ڈھیر لگ گئے آنکھوں کے سامنے


ان کے سروں سے چادریں تک چھین لی گئیں

نکلیں نہ رات کو بھی جو تاروں کے سامنے


منظور تھا یہی مرے پروردگار کو

انساں سے کتنا خوش تھا فرشتوں کے سامنے


بجھ کر بھی جگمگا دیا سارے جہان کو

ٹھہریں نہ آندھیاں بھی چراغوں کے سامنے

شاعر کا نام :- مظفر وارثی

کتاب کا نام :- صاحبِ تاج

دیگر کلام

توحید پر محیط ہے ، قربانیِ حسین

جبر و صبر کے مناظرے کا نام کربلا

لہو تیرا جو اِن آنکھوں کے

جو یقیں زاد ہے جو صابر ہے

آئے ہر سال محرّم ، مرے اشکوں

بوئے بہشت، زوجِ علی، دخترِ رسول

یہ اصحاب صُفّہ، خدا کے سپاہی

مسجدِ حق کی اذاں، احمد رضا

یا حاجی وارث علی پیا

حضرت عائشہ نے جو اک بار