خدا تیرا اجمیر آباد ر کھے ملے ہم کو جلووں کی خیرات خواجہ
ذرا اپنی محفل میں آؤ خدارا ہیں مچلے ہوئے آج جذبات خواجہ
کہاں جائیں ہندالولی یہ سوالی
یہ چشتی ہیں تیرے تو سب کا ہے والی
کھلیں پھول گلشن میں تیرے کرم کے
جو ہو جائے رحمت کی برسات خواجہ
یہ کس شان سے تیری شادی رچی ہے
چھٹی میں ہر اک غم کی بدلی چھٹی ہے
ہاں شمس و قمر کی بھی جلوہ گری ہے
ہے کیسی سجی تیری بارات خواجہ
کھڑے ہیں گدا لیکے کاسہ گدائی
ترے نام کی دے رہے ہیں دہائی
تجھے واسطہ تیرے پیارے قطب کا
سنو ہم فقیروں کی بھی بات خواجہ
دل مضطرب کے سنو آج نالے
بلا اپنے اجمیر اجمیر والے
یا ہجویر والے کی چوکھٹ کا صدقہ
مرے گھر بھی آؤ کسی رات خواجہ
ترے نام پر وقف ہے زندگانی
جو منظور کر لو تو ہے مہربانی
میں لایا ہوں آنکھوں کی جھولی میں بھر کر
تیرے در پر اشکوں کی سوغات خواجہ
ترے آستاں سے کہاں اٹھ کے جائے
یہ دیوانہ بیٹھا ہے دامن بچھائے
مجھے بھی دلا دو کرم کے خزانے
خدا مانتا ہے تری بات خواجہ
مجھے ہے ترے آستانے سے نسبت
ترے نام سے ہے نیازی کی عزت
یہ سب آپ کا ہی کرم ہے وگرنہ
کہاں میں کہاں آپ کی ذات خواجہ
شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی
کتاب کا نام :- کلیات نیازی