ان کی صورت نور کی تفسیر تھی

ان کی صورت نور کی تفسیر تھی

ان کی سیرت آیہء تطہیر تھی


خُلق ان کا خلق میں مشہور تھا

خِلق ان کی باعث توقیر تھی


نام سید مصطفیٰ حیدر حسن

شخصیت میں نام کی تاثیر تھی


مصطفیٰ کا صبر اور ایثار تھا

اور علی کی خوبیِ تقریر تھی


انکساری تھی حسن کی بے گماں

اور تواضع پرتوِ شبیر تھی


چہرہ تھا عکسِ رخِ غوث الوریٰ

اک جھلک بیمار کو اکسیر تھی


میزبانی کا وہ عالم سال بھر

گویا یہ بھی ان کی ہی جاگیر تھی


آسمانِ علم کے شہباز تھے

ان کی ہر اک بات با تدبیر تھی


آپ کی تحریر تھی جادو رقم

معنویت میں کلامِ میر تھی


قول و فعل و حال میں سچے تھے وہ

ان کے ماتھے صدق کی تحریر تھی


اچھے ستھرے دونوں جس کا عکس ہوں

آپ کی ہستی وہی تصویر تھی


احتشامِ ارضِ مارہرہ تھے وہ

ذات ان کی منبعِ تنویر تھی


مومنوں پر ذاتِ والا مہرباں

بد عقیدوں کے لیے شمشیر تھی


تھیں مریدوں پر ہمیشہ شفقتیں

ایک ایک کی فکر دامن گیر تھی


ختم تھیں ان پر قرابت داریاں

میزبانی ان کی عالم گیر تھی


نظمی عاصی نے لکھی منقبت

اس کی ہی قسمت میں یہ تحریر تھی

کتاب کا نام :- بعد از خدا

دیگر کلام

جاذبِ نورِ شریعت حضرتِ سید میاں

کیسا چمک رہا ہے سید میاں کا روضہ

ہم سنیوں کو عزت سید میاں نے دی ہے

قادریت کے نشاں تھے حضرتِ سید میاں

رضویت ماتم کناں ہے مضطرب برکاتیت

چھوڑو اس دنیا کی سیاست حسن میاں کی بات کرو

خدائے پاک کی رحمت تھے احسن العلماء

وہ ایک فرد جو محور تھا سارے رشتوں کا

یہ کس نے دہن گنہ میں لگام ڈالی ہے

ذوالفقارِ نبی جب علی کو ملی