امیرِ بحر و بر جیسا رسولِ خوش نظر جیسا

امیرِ بحر و بر جیسا رسولِ خوش نظر جیسا

کبھی آیا نہ آئے گا ، بشر خیر البشرؐ جیسا


مٹائے اُسؐ نے دنیا سے اندھیرے کالی صدیوں کے

دیا اُسؐ نے اُجالا ساری دنیا کو سحر جیسا


زمیں سے عرش تک منظر ہیں کتنے نُور کے لیکن

کہاں پھر بھی سفر روشن مدینے کے سفر جیسا


بہت سے معجزے دیکھے ہیں آنکھوں نے رسولوں کے

کسی نے معجزہ دیکھا کہاں شق القمر جیسا


جہاں سے روشنی کی بھیک ملتی ہے ستاروں کو

کوئی پاکیزہ در ایسا کہاں اس پاک در جیسا


بلا تخصیص جو سایہ عطا کرتا ہے لوگوں کو

جہانوں میں کہاں ٹھنڈا شجر ، ایسے شجر جیسا


بھلا نعم البدل صدیقِ اکبر کا کہاں کوئی

مِلا کس کو غلام انجؔم زمانے میں عمر جیسا

شاعر کا نام :- انجم نیازی

کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو

دیگر کلام

کیسے ہیں دو جہاں کے نبیؐ سوچتا رہوں

ما سوا اک آستاں کے آستاں کوئی نہ ہو

مدینے کی طرف مائل رہے میری نظر آقا

لفظ پھولوں کی طرح مہکے ہوئے ہیں آج بھی

کس قدر تھا رُوح پرور دُور جا کر دیکھنا

اشارے بھانپ جاتی ہے ادا پہچان لیتی ہے

زمیں سے عرش تک ہے آپؐ کا دربار کیا کہنے

میرے کانوں میں خوشبو گھولتا جب تیراؐ نام آئے

فرش تا عرش ہیں سارے زمانے آپؐ کے

میری ہر ایک چیز ہے سرکار آپؐ کی